مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے کا فارمولا تبدیل کرنے کا فیصلہ

ارشاد انصاری  ہفتہ 4 دسمبر 2021
مہنگائی جانچنے کا معیار اور فارمولا عالمی سطع پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق طے پاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مہنگائی جانچنے کا معیار اور فارمولا عالمی سطع پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق طے پاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملک میں مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے کا فارمولا تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے جس کیلیے ادارہ شماریات نے ابتدائی ورکنگ شروع کردی ہے۔

مہنگائی کی شرح کے تعین کے نئے فارمولے میں کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی)اور حساس قیمتوں کے اشاریے(ایس پی آئی) کیلیے مہنگائی کی شرح جانچنے کیلیے وضع کردہ باسکٹ میں شامل آئٹمز کے تناسب و ویٹج میں ردوبدل کی جائے گی اور مہنگائی کی باسکٹ میں شامل اشیا کے مہنگائی میں تناسب اور اور آبادی میں تناسب کے ساتھ ساتھ اشیا کے ویٹج پر بھی نظر ثانی کی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے فارمولے میں دیہی اور شہری علاقوں کی آبادی اور جی ڈی پی میں حصے اور مہنگائی کی باسکٹ میں حصے پر بھی نظر ثانی کی جائے جن علاقوں کی آبادی کے لحاظ سے تناسب اور مہنگائی کے تعین میں تناسب کی شرح میں غیر معمولی و غیر حقیقت پسندانہ فرق پایا جائے گا اس فرق کو دورکیا جائے۔

ذرائع کے مطابق مہنگائی کی باسکٹ میں شامل شہر کراچی کی آبادہ ملکی آبادی کے دس فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ مہنگائی جانچنے کیلیے کراچی کا تناسب 40فیصد ہے نئے فارمولے میں مہنگائی کی باسکٹ میں کراچی کے تناسب و ویٹج کو کم کیا جائے گا۔

اس بارے میں ادارہ شماریات کے سینئر افسر نے بتایا کہ مہنگائی کی شرح کے تعین کے فارمولے پر ہر دس سال بعد نظر ثانی کرکے نیا فارمولا متعارف کروانا ہوتا ہے اس وقت مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے کیلئے بنیادی سال 2015-16 ہے اس سے قبل یہ بنیادی سال 2007-08 تھا تاہم انکا کہنا تھا کہ ہر دس سال بعد فارمولے پر نظر ثانی کرنا کوئی قانونی تقاضا نہیں ہے۔

مہنگائی جانچنے کا معیار اور فارمولا عالمی سطع پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق طے پاتا ہے کیونکہ ادارہ شماریات کی جانب سے مہنگائی کے متعین کردہ اعدادوشمار کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)اور عالمی بینک سمیت دوسرے ادارے بھی علاقائی تقابلی جائزوں میں استعمال کرتے ہیں اس لئے اس کیلیے تمام پہلووں سے ورکنگ کرکے فارمولا طے کیا جاتا ہے اور طے پانے والے فارمولے کی بنیاد پر جو اعدادوشمار متعین ہوتے ہیں انھیں عالمی سطع پر اعتماد حاصل ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔