ایکسپریس سیمینار؛ شوگر خطرناک مرض، فالج و ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے، طبی ماہرین

میاں اصغر سلیمی / احسن کامرے  اتوار 5 دسمبر 2021
طرز زندگی بدلنا چاہیے، آفتاب محسن، عزیز الرحمن، نابینا پن، بلڈ پریشر، گردے فیل ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، پروفیسر طارق وسیم۔ فوٹو: ایکسپریس

طرز زندگی بدلنا چاہیے، آفتاب محسن، عزیز الرحمن، نابینا پن، بلڈ پریشر، گردے فیل ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، پروفیسر طارق وسیم۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: طبی ماہرین نے ذیابیطس کو خطرناک مرض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں پر ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، شوگر فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوں اور پاؤں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس کے بڑے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایکسپریس میڈیا گروپ اورپاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے زیر اہتمام ایٹکو، سرویئر، گیٹز فارما، ہائی کیو، ہائی نون اور لنڈبیک کے تعاون سے ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے لاہور کے مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، میزبانی کے فرائض ڈاکٹر وفا قیصر نے انجام دیئے۔

پی ایس آئی ایم کے صدر پروفیسرڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض ہر چوتھے شخص کو ہے ، فیملی میں اگر شوگر ہے تو اس بیماری کے آنے کے چانسز بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ شوگر جیون ساتھی ہے جو زندگی کے ساتھ ہی چلتا ہے۔ بدقسمتی سے مریض انسولین لگوانے سے پرہیز کرتے ہیں، اگر شوگر کنٹرول نہ ہو تو انسولین لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔

پی ایس آئی ایم کے چیئرپرسن پروفیسرایم زمان شیخ نے کہا کہ شعبہ طب میں یہ مرض خاموش قاتل کہلاتا ہے۔ انسولین کی ایجاد سے پہلے اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا، مرض کی بڑی وجہ ڈپریشن ہے، رات کو اٹھنا اور پھر نیند نہ آنا، صبح کو اداس اٹھنا اور خود کشی سمیت ڈپریشن کی9قسمیں ہیں۔

پی ایس آئی ایم کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے کہا کہ ذیابیطس بیماریوں کی ماں ہے، بدقسمتی سے شوگر کا مرض مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اگر ماں کو شوگر ہے تو اس کے بچے کو بھی شوگر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اگر زچگی کے دوران شوگر کنٹرول نہ ہو تو ڈیلیوری کے وقت کئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، حمل کے وقت خاتون کی عمر 35 برس سے زیادہ ہو تو اسے سکریننگ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہئے۔

پروفیسر آفتاب محسن نے کہا جب ضرورت سے زیادہ کھانا ہضم نہ ہو تو انسان موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے، دنیا میں سات کروڑ لوگوں کی اموات بیماریوں سے ہوتی ہے، ہم اصل ٹریک سے ہٹ گئے ہیں، اصل چیز روح ہے لیکن انسان جسم کی طرح زیادہ توجہ دیتا ہے، اس بیماری کی وجہ ٹینشن ہے۔

پروفیسر عزیزالرحمان نے کہا کہ عمومی طور پر95فیصد افراد میں اس مرض کی بظاہر کوئی علامت نہیں ہوتی، بلڈ ٹیسٹ میں اگرویلیو126 یا اس سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ شوگر کا مرض ہے۔ شوگر کا مرض لاحق ہو جائے تو طرز زندگی کو بدلنا چاہئے۔

پروفیسر طارق وسیم نے کہا شوگر ایک فیملی کی طرح ہوتی ہے جس کی بہن کولیسٹرول، بلڈپریشر بھائی اور تمباکو نوشی دوست ہے، اگر شوگر کو کنٹرول نہیں کریں گے تو آگے جا کر مسائل پیدا ہوں گے، دنیا میں نابینا پن کی سب سے بڑی وجہ شوگر ہے، ہارٹ اٹیک ہونے کی بڑی وجہ بھی شوگر ہی ہے، اس بیماری میں مبتلا شخص کے گردے فیل اور بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔

پروفیسر خورشید خان نے کہا کہ مریضوں کو مرض کی شدت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، جب مرض بڑھ جائے تو انسولین کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

پروفیسر ساجد عبیداللہ نے شوگر کا مرض اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کھانے پینے میں بے احتیاطی کرتے ہیں، نان اور کولڈ ڈرنکس کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے، ہفتے میں پانچ دن ورزش ضرور کریں،کچھ نہیں کر سکتے تو بیڈ پر لیٹ کر ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلانا بھی ایکسرسائز ہے۔

ڈاکٹر طارق میاں نے کہا پچاس سال پہلے کسی گھر میں شوگر کا کوئی مریض نہیں ہوتا تھا، اب ہر گھر میں شوگر کے مریض ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا لائف سٹائل بدل لیا ہے، ہم ایکسرسائز نہیں کرتے، ،اچھی صحت ہماری کبھی ترجیح نہیں رہی۔ کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک کو لازم سمجھا جاتا ہے، ایک بوتل پینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے سولہ چمچ چینی کا استعمال کیا ہے۔

سیمینار کے اختتام پر ایکسپریس فورم کے ایڈیٹر اجمل ستار ملک نے تمام مقررین، سپانسرز اور حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہر موقع پر عوامی آگاہی کیلیے کردار اداکرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔

سیمینار میں شریک شرکاکا طبی ماہرین کے ساتھ سوال و جوا ب کا سیشن بھی ہوا۔ اختتام پر مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔