سیالکوٹ کا افسوسناک سانحہ

ایڈیٹوریل  اتوار 5 دسمبر 2021
حکومت، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ملک میں لاقانونیت سے نمٹنے کا کوئی راستہ تلاش کریں۔ فوٹو: فائل

حکومت، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ملک میں لاقانونیت سے نمٹنے کا کوئی راستہ تلاش کریں۔ فوٹو: فائل

سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے ایک نجی فیکٹری کے سری لنکن منیجر کو بے دردی سے مارنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی، واقعے نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا، سیاسی اور فوجی قیادت نے واقعے کو درد ناک، شرمناک اور ماورائے قانون قرار دیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مرکزی ملزم کو گرفتار جب کہ100سے زیادہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ اس طرح کے حملے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سیالکوٹ وزیر آباد روڈ پر واقعے نجی فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو ایک مذہبی پوسٹر پھاڑنے کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کی ہلاکت کے بعد لاش کو آگ لگا دی جب کہ فیکٹری میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ فیکٹری پر خوفناک حملہ اور سری لنکن شہری کو زندہ جلانا پاکستان کے لیے شرم کا دن ہے۔ انھوں نے کہا کہ تحقیقات کی نگرانی میں خود کر رہا ہوں تاکہ کوئی اور غلطی نہ ہو، تمام ذمے داروں کو قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے گی۔ اس طرح کے ماورائے عدالت قتل کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔

اس حقیقت کی دردناکی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ معاشرے میں قانون کے احترام کی حرمت دم توڑ چکی ہے، تشدد، انتہا پسندی، بہیمانہ جرائم، ملکی جمہوری نظام کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں، جو فہمیدہ لوگ عرصہ دراز سے کہہ رہے ہیں کہ سماجی اقدار سرینڈر کرگئے ہیں بلکہ پورا جمہوری سسٹم سرینڈر کر گیا ہے، قانون شکن اس پر غلبہ پا گئے ہیں، وہ لوگ اس درد انگیز سانحہ کے حوالہ سے اپنے انداز نظر کی صداقت پر ملکی جمہوری نظام کی بے بسی اور قانون کے عدم احترام پر یقینا دل گرفتہ ہوں گے۔

ملکی سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی نظام ہمہ جہتی انحطاط کا شکار ہے، ہمارے دین میں انسانی جان کی قدر و قیمت مسلمہ ہے لیکن انسان کس دردناک طریقے پر تعصبات، دشمنی اور ذاتی انتقام میں انسان کا خون بہاتا ہے، جرائم اور قانون شکنی کے کیا کیا مکروہ اور بہیمانہ طریقے حضرت انسان نے ڈھونڈ نکالے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، آج ہم سری لنکن شہری کی افوسناک موت پر ایک اجتماعی دیوانگی پر کف افسوس مل رہے ہیں، ہر طرف جنگل کا قانون ہے اور قوم اس کے منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے خون کے آنسو رو رہی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے خوفزدہ ہیں، طاقتور ادارے حیران ہیں کہ کیا کریں، ایک عجب بے بسی کا عالم ہے، حکمرانی کے ہاتھ پیر کسی نے باندھ رکھے ہیں، کہیں سے جواب نہیں ملتا۔

ایک جمہوری سماج میں جہاں سیاسی اداروں کا فیصلہ کن کردار ہونا چاہیے، قانون پر عملدرآمد اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہر گز نہیں ہونی چاہیے، جمہوری عمل، عوام کے قانونی طرز عمل کی لاچاری نے ملکی جمہوری نظام کو کہاں لاکھڑا کیا ہے، ملک فیصلے کے شدید بحران میں ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم عمل کے تناظر میں ملکی سیاست، سماجی ارتقا، جمہوریت کی بے آبروئی، قانون شکی کی دردناک پسپائی پر زوال کے اسباب اور قومی کردار کی زبوں حالی کا محاسبہ کرے، آج کے سانحہ کے سیاق وسباق میں قوم کو بے شمار عظیم المیوں پر سیاسی، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی نقصان کا جائزہ لینا ہوگا جو سیاسی طور پر قوم نے اٹھایا ہے، سانحہ سیالکوٹ کے واقعاتی پس منظر میں جو بھی اندوہ ناک ٹریجڈی ہوئی ہے۔

وہ جاری سیاسی خاموشی، منافقت اور معذرت خواہانہ طرز عمل کا منطقی نتیجہ ہے جو ریاستی، سیاسی، سفارتی حوالوں سے روا رکھا گیا، ہم نے ایک عجب جمہوری نظام کی بنیاد رکھی جس کی اساس انتقام، محاذ آرائی اور کردار کشی پر استوار ہے، ارباب اختیار نے ہر مقام پر فیصلے میں دیر کر دی، امن کے لیے معاشرتی اقدار کی دشمن طاقتوں سے ہاتھ ملائے، رواداری کو ہمارے سماجی نظام میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے، صبر و تحمل کا کہیں گزر نہیں ہے۔

ایک افراتفری، منافقانہ جوڑ توڑ، حریفانہ مفاہمت اور غیر انسانی صورتحال کو سہارا دینے میں پورا سسٹم اپنی تمام تر طاقت صرف کرنے پر مجبور ہے، ملکی جمہوریت عوام کو ریلیف دینے، مصالحت اور خیر خواہی پر آمادہ نہیں، ریاستی ادارے اس جمہوری زوال اور انحطاط کو روکنے کی صائب کوششوں میں کہیں نظر نہیں آتے، جب کہ سیاسی جماعتیں قومی المیوں، مفاہمت، عوام کی تربیت اور ملک کو ایک تہذیبی، ارتقائی سوچ اور معاشی آسودگی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش پر کوئی توجہ نہیں دیتیں۔

ہم نے بھارت اور دیگر ہمسایوں سے مستقل دشمنی پر انحصار کیا، ہم نے دوستی کے مفاہیم بدل ڈالے، سری لنکا پاکستان کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتا ہے، ہمارے دو طرفہ تعلقات برس ہا برس سے جاری ہیں، سری لنکا نے بھی دہشتگردی کے خلاف ایک جارحانہ وفاتحانہ جنگ لڑی ہے ہمیں اس کی دوستی پر ناز ہے، سری لنکا نے اپیل کی ہے کہ ان کے شہری کی موت کی تحقیقات کے لیے پاکستان کارروائی کریگا۔

پولیس اس کیس کو اس پہلو سے بھی دیکھے کہ کہیں یہ کاروباری دشمنی کا سبب تو نہیں اور مقصد کے حصول کے لیے مذہبی آڑ لی گئی ہو۔ پاکستان میں مجرمانہ ذہنیت بہت طاقت ور اور شاطر ہو چکی ہے۔ کاروباری رنجش یا حسد میں مبتلا ایسی ذہنیت اپنے مقصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کے لیے اکثر اوقات مذہب کی آڑ لے لی جاتی ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا عام مسلمان اپنے عقائد کے حوالے سے انتہائی حساس اور مخلص ہے۔

سادہ لوح پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نادانستگی میں کسی مجرمانہ ذہنیت کے منصوبے کا ایندھن بن رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہبی، نسلی اور لسانی تعصبات کی آڑ میں مفاد پرست عناصر سادہ لوح عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی اس قسم کی صورت حال میں گھبراہٹ اور مصلحت اندیشی کا شکار ہو جاتے ہیں اور قانون کے مطابق سخت ایکشن لینے سے ڈرتے ہیں۔ اس وجہ سے کسی بھی سانحے کی تفتیش میں اسقام رہ جاتے ہیں، یوں جب یہ کیس عدالت تک پہنچتا ہے تو عدلیہ کے لیے کسی کو سزا دینا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے جائے وقوعہ پر نمایندہ ایکسپریس کو بتایا کہ مقتول گزشتہ7 سال سے فیکٹری میں آپریشنل منیجر تھا۔ اہلکار کے مطابق فیکٹری میں صبح سے افواہیں گردش کر رہی تھیں اور ایک ہجوم جمع تھا، اہلکار کے مطابق پولیس کو اس واقعے کے بارے میں کافی دیر بعد مطلع کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ٹویٹ کیا کہ سیالکوٹ کے ہولناک واقعے پر انتہائی صدمہ پہنچا۔ میں نے آئی جی پولیس کو اس کی مکمل تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے، انھوں نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے، انھوں نے کہا یقین رکھیں، اس غیر انسانی فعل میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم کے نمایندہ خصوصی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر محمود اشرفی نے تمام علمائے کرام کی جانب سے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ اس نے اسلام کو بدنام کیا۔

ان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات خاور حسان بھی موجود تھے، انھوں نے کہا، اس واقعے میں ملوث عناصر نے اسلامی قوانین اور تعلیمات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مجرموں کو بربریت کی سزا ضرور ملے گی۔ اس واقعہ میں ملوث افراد نے نہ تو ملک کی خدمت کی اور نہ ہی اسلام کی۔

آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان نے کہا ہے کہ سیالکوٹ واقعے میں لوگوں کو اشتعال دلانے اور قتل کا اعتراف کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جا رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹویٹ میں واقعے کو الم ناک اور قابل مذمت قرار دے دیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا ہے کہ گستاخی و توہین مذہب کی سزا کے لیے ملکی قوانین موجود ہیں، ہر مجرم کو قانون کے سامنے لایا جائے گا۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی ملک میں لاقانونیت سے نمٹنے کا کوئی راستہ تلاش کریں، عوام کو انتشار سے بچائے، ہلاکتوں کے سلسلے دراز ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے سوال پر ادارہ جاتی انحطاط، بے حسی اور سیاسی مائنڈ سیٹ میں کسی نمایاں تبدیلی پر بھی کوئی توجہ دی جائے، حکومت انتہا پسندی کے گرداب سے نکلنے، خطے کے ممالک سے مخاصمت اور جمہوری اسلوب اور خیرسگالی کی روش عام کرنے کی ضرورت کا ادراک کرے، تاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی راہ ہموار ہوسکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس سانحہ کے مضمرات عالمی سطح پر پاکستان کے لیے دھچکا ثابت ہوں گے۔ ہمیں ایک موثر سفارت کاری پر گامزن رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔