سانحہ سیالکوٹ، اب مٹی پاؤ سوچ کی گنجائش نہیں

ایڈیٹوریل  پير 6 دسمبر 2021
کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سخت ترین ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ فوٹو: فائل

کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سخت ترین ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ فوٹو: فائل

سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پر پورا ملک سوگوار ہے، ہر شخص اس دردناک سانحہ پر غمزدہ ہے، وزیر اعظم عمران خان نے سیالکوٹ واقعہ پر سری لنکا کے صدر سے رابطہ کر کے انھیں ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے اور ذمے داروں کو سزا دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ہفتے کو ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ انھوں نے آج متحدہ عرب امارات میں موجود سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے فون پر بات کی ہے، انھیں سیالکوٹ میں پریانتھا دیوادانا کمارا کے لرزہ خیز قتل پر پاکستانی عوام کے غم و غصے اور شرمندگی کا بتایا ہے ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سری لنکا کے صدر کو 100 سے زائد لوگوں کو گرفتار کرنے کی بھی اطلاع دی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ ملزموں کے خلاف قانون کی پوری قوت کے ساتھ مقدمہ چلایا جائے گا۔

ادھر سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹ میں اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سری لنکن شہری کے قتل کے معاملے میں انصاف فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری پر حملہ اور قتل کی خبر سن کر انھیں افسوس ہوا ہے ۔ ان کی ہمدردی اور دعائیں لواحقین کے ساتھ ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی سری لنکن ہم منصب سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے اس واقعہ کو باعث ندامت قرار دیا ہے اور امید ظاہرکی ہے کہ اس واقعے سے پاکستان اورسری لنکا کے تعلقات متاثر نہیں ہوںگے۔

دریں اثنا سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کے قتل کے الزام میں 13مرکزی ملزمان سمیت118 افراد کوگرفتار کرلیا گیا ہے، پولیس کی مدعیت میں متعدد افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، گرفتار ہونے والوں میں سانحہ کا مرکزی ملزم بھی شامل ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق فیکٹری کے اندر بیسیوں کے قریب افراد ڈنڈے سوٹے لیے موجود تھے، تمام افراد سری لنکن شخص کی لاش کو سڑک پر گھسیٹ رہے تھے۔ پولیس نفری ناکافی ہونے کے باعث ہجوم کو نہ روکا جا سکا، ہجوم نے لاش سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی۔

ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ ہجوم نے توہین مذہب کے مبینہ الزام میں سری لنکن شہری کو قتل کیا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو واقعہ کی ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ صبح گیارہ بج کر 26 منٹ پر پولیس کو رپورٹ ہوا۔ اس وقت فیکٹری کے ورکر سڑک پر آچکے تھے جس کے باعث پولیس کو پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حال ہی میں کچھ ورکرزکو ڈسپلن توڑنے پر فارغ بھی کیا گیا تھا، منیجر ورکرز کو ڈسپلن کے مطابق کام کرنے کاحکم دیتے تھے، ان احکامات کی وجہ سے ورکرز غصے میں تھے، واقعہ کی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی بھجوا دی گئی ہے۔

پولیس نے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ قبضے میں لے کر اسپیشل ٹیم تشکیل دے دی ہے جو اس فوٹیج کو دیکھ رہی ہے جس کے ذریعے ملزموں تک پہنچا جا رہا ہے۔ پولیس تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی مزید تفصیلات کے مطابق وقوعہ کے وقت فیکٹری میں رنگ روغن کا کام جاری تھا، سری لنکن فیکٹری  منیجر نے دیوار پر لگے کچھ پوسٹرز اتارے تو اس دوران فیکٹری منیجر اور ملازمین میں معمولی تنازع ہوا۔

فیکٹری منیجر زبان سے ناآشنا تھے جس وجہ سے انھیں کچھ مشکلات تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کے ساتھ تنازع حل کرا دیا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کر دیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروںکو ان ملازمین کو گرفتار کرنا چاہیے جو واقعہ کی سنگینی کا سبب بنے، فوٹیج سے پتہ چلا ہے کہ صبح 10بج کر 40منٹ پر منیجر کو عمارت سے نیچے گرایا گیا اور مشتعل افراد اسے گھسیٹ رہے تھے، منیجر کو مشتعل ملازمین نے اندر ہی جان سے مار دیا تھا، اس کے بعد منیجر کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری سے باہر لایا گیا۔ سڑک بند ہونے سے پولیس کی نفری کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں تاخیر ہوئی ، ان کے پہنچنے تک ملازمین فیکٹری منیجر کی لاش کو جلا چکے تھے۔

فیکٹری کے اندر رونما ہونے والے واقعہ سے پتا نہیں چلتا کہ فیکٹری کے اندر انتظامیہ کے پاس اس قسم کی ہنگامی اور پرتشدد صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب تعداد میں تربیت یافتہ سیکیورٹی فورس موجود نہیں، جب صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ برہم مزدور منیجر کو جان سے مارنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔

اس وقت ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو مقتول منیجر کی جان بچائی جا سکتی تھی، پولیس فورس بھی معاملے کی سنگینی کو سمجھتی اور راستہ بند کرنے والے ہجوم کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینک کر منتشر کرکے بروقت ان ملزمان تک پہنچ سکتی تھی جو منیجر پر تشدد کررہے تھے، لگتا ہے کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی ان میں مشتعل اور برہم ہجوم کو ہنڈل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔

پاکستان میں رونما ہونے والے سانحات کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولیس فورس کا کردار ہمیشہ کمزور رہا ہے، بہرحال سری لنکن منیجر کی الم ناک موت کے وقت لاقانونیت اور ہنگامہ آرائی کو کنٹرول کرنے کا فیکٹری انتظامیہ  کے پاس کوئی نظام موجود تھا اور نہ پولیس افسران اور اہلکار ہی اس ذہانت اور صلاحیت کے مالک تھے کہ ریسکیو کرتے۔ ادھر صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا ہے کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان حسان خاور نے گزشتہ روز آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ فیکٹری میں تشدد سے غیر ملکی شہری کی ہلاکت کے واقعہ کی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب خود نگرانی کر رہے ہیں، 13 مرکزی ملزمان سمیت118  افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ملزمان کو عبرتناک سزا دلوائی جائے گی۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سخت ترین ایکشن کی ہدایت کی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پولیس کو پہلی کال موصول ہونے سے لے کر موقع پر پہنچنے تک کے مرحلے کی بھی محکمانہ انکوائری کی جا رہی ہے، تاخیر اور غفلت سامنے آنے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

اس موقع پر انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس راؤ سردار علی خان نے کہا کہ پنجاب پولیس نے 24 گھنٹوں سے کم وقت میں 200 چھاپے مارے ہیں، 13مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں 160 سی سی ٹی وی کیمروں سے حاصل کردہ 12گھنٹے سے زائد کی فوٹیجز اور موقع پر موجود افراد کے موبائل ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پولیس کے پہنچنے تک سری لنکن شہری کی ہلاکت ہو چکی تھی۔

واقعہ کی اطلاع پر ڈی پی او سیالکوٹ اور ایس ایس پی سیالکوٹ بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور مشتعل ہجوم کو کنٹرول کرکے امن و امان قائم کیا۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ انھوں نے اطلاع ملتے ہی آر پی او گوجرانوالہ کو موقع پر پہنچنے کی ہدایت کی، پولیس نے بہترین حکمت عملی اپناتے ہوتے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ اور متعلقہ سینئر حکام نے آپریشن میں حصہ لیا اور اس وقت سینئر پولیس افسران کی ٹیم واقعہ کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کر رہی ہے۔

پولیس تفتیش کے بعد مزید پہلو سامنے لائیں گے۔ میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا کہ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا اور پولیس تمام پہلوؤں سے تفتیش جلد مکمل کرکے انھیں چالان کے لیے عدالت میں پیش کرے گی تاکہ ملزمان کو جلد سے جلد سزا دلوائی جا سکے۔ حسان خاورنے کہا آنجہانی فیکٹری منیجر کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اور وزارت داخلہ جلد میت سری لنکن ایمبیسی کے حوالے کر دے گی۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس نے امن وامان پر قابو پایا۔

سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے بہیمانہ تشدد سے سری لنکن منیجر کی جان بچانے کی کوشش کرنے والے پروڈکشن منیجر کی وڈیو بھی سامنے آگئی ہے جس میں اسے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر ملکی کو بچانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک نجی ٹی وی کو حاصل ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب فیکٹری ملازمین نے غیرملکی منیجر پر حملہ کیا تو پروڈکشن منیجر اسے ساتھ لے کر چھت پر چڑھ گیا اور دروازہ بند کر دیا ۔ تاہم 20 سے 25 مشتعل افراد دروازہ توڑ کر حملہ آور ہوگئے۔ پروڈکشن منیجر ان سے درخواست کرتا رہا کہ غیر ملکی نے کچھ کیا ہے تو پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔

مشتعل ہجوم نے پروڈکشن منیجر کو بھی زدو کوب کیا، ایک اور وڈیو میں فیکٹری کا ایک ملازم پریانتھاکمارا کے اوپر لیٹ گیا اور تشدد سہتا رہا لیکن مشتعل ورکرز نے اسے اٹھا کر اوپر سے ہٹا دیا، وڈیو میں کچھ افراد کو نعرے لگاتے اور یہ کہتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے کہ یہ (منیجر) آج نہیں بچے گا۔

لہٰذا تحقیقات ہر پہلو سے مکمل ہونی چاہیے کیونکہ یہ ہائی پروفائل قتل کیس ہے۔ دنیا تک پاکستان میں امن اور لاقانونیت کے درمیان عالمی رائے عامہ ہمارے بارے میں دہشت گردی پر جو رائے دے گی وہ ملک میں شفاف تحقیقات کے بارے میں سوال اٹھائے گا۔ ہمیں سری لنکا کو فوری انصاف مہیا کرنے کے لیے قاتلوں کوکیفر کردار تک پہنچانا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔