جمہوری نظام اور بے بس عوام!

شکیل فاروقی  منگل 7 دسمبر 2021
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

تیس چالیس سال پرانی بات ہے کہ میرا اتفاق اپنے ایک عزیز کے کارخانے میں جانے کا ہوا جو کے سوٹ کیس بنانے والا کارخانہ تھا۔ میں وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا لیکن موصوف وہاں موجود نہ تھے البتہ ان کی جگہ پر ایک بزرگوار کو بیٹھے ہوئے پایا جو اپنے خیالات میں گم تھے۔ کچھ ہی دیر تک اجنبیت کی کیفیت طاری رہی لیکن بڑے صاحب نے آخر کار تنگ آکر جمود کو توڑ ہی دیا۔

ان کا مختصر سا سوال تھا ’’بیٹے آپ کون ہیں اور آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے لیکن بزرگ کو میرے جواب سے تشفی نہ ہوئی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر گویا ہوئے ’’ میرا مطلب ہے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟

آپ کے لب و لہجہ سے تو یہ لگتا ہے کہ شاید دلّی والے ہو۔ جی ہاں! آپ نے میری گھتی سلجھا دی۔’’ میں نے جواب دیا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہ میرے جواب سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ ان سے رہا نہ گیا اور بولے’’ میاں ذرا کچھ کھل کر بتاؤ۔’’ اب میری باری تھی سو میں نے پوچھ ہی لیا ‘‘ بابا جان کچھ اپنے بارے میں بھی تو بتائیں۔ آپ کے کتنے بال بچّے ہیں؟’’ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ تلملا کر اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کہ اچانک کرنٹ لگ گیا ہو یا مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہو گئی ہو۔

انھوں نے جواب دینے کے بجائے پہلے اپنا کرتا اتارا اور اس کے بعد بنیان بھی اتار پھینکا۔ ان پر شدید لرزہ طاری تھا اور وہ بالکل بے قابو ہو کر بری طرح کپکپا رہے تھے اور شدید رقت ان پر طاری تھی۔ پھر کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئے اور اپنے جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے ‘‘یہ دیکھو ! یہ ہیں میرے بچّے۔’’ میں سٹپٹا سا گیا۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چھریوں کے نشان تھے اور گردن پر ایک بڑا سا کٹ لگا ہوا تھا جیسے کسی نے گردن پر چاقو مار دیا ہو۔

میں ڈرا سہما رہا اور اس وقت چپ رہنا ہی غنیمت جانا۔ کچھ دیر بعد وہ نارمل ہوئے اور بولے’’ دیکھ لیے میرے بچّے’’پھر انھوں نے اپنی داستان الم سنائی تو معلوم ہوا کہ قیام پاکستان کے وقت دلّی کے جن علاقوں میں ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تھا اس میں ان کا علاقہ بھی شامل تھا جہاں ان کے گھر کے بچّے بچّے کو نہایت بے دردی اور بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

اب سنیے ریاض احمد کی آپ بیتی جن کا گھرانہ 1947 میں امرتسر کے ایک محلے میں تھا یہ مکس آبادی والا علاقہ تھا جس میں ہندو مسلم اور سکھ سبھی شامل تھے۔ آپس میں بڑا میل جول تھا اور سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ کبھی کسی کو غیریت کا احساس چھو کر بھی نہ گزرا تھا۔ سب اپنی اپنی زندگی میں مگن تھے۔ لگتا تھا کہ یہ سلسلہ سدا اسی طرح جاری و ساری رہے گا مگر یکایک ایک بھیانک طوفان آگیا اور سب کچھ بدل گیا۔ سارے رشتے ناطے پَل بھر میں دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹ گئے جیسے ریت کے گھروندے ہوں۔

ہر طرف آگ ہی آگ لگ گئی اور خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ وہ قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ وہ کچھ ہوا جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ دوست یک لخت دشمن بن گئے اور ایک دوسرے کے قاتل بن گئے۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی یہ خونی ڈرامہ شروع ہوگیا۔ شہر میں غالب اکثریت سکھوں کی تھی اور مسلمان اقلیت میں تھے۔ ریاض احمد کی عمر اس وقت تقریباً چار پانچ سال کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ابّا جان اس وقت گھر سے باہر کسی کام سے گئے ہوئے تھے اور ان کی والدہ ان کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھیں۔

انھیں نہیں معلوم کہ ان کی والدہ کیسے معجزانہ طور پر وہاں سے ان کو لے کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں اور بمشکل تمام کھیتوں میں چھپتی چھپاتی گرتی پڑتی اپنے بیٹے کے ساتھ سرحد عبور کرکے سرزمین پاکستان میں داخل ہو گئیں۔ ریاض احمد اب ماشاء اللّہ نا صرف بال بچّے دار ہیں بلکہ پوتے پوتیوں والے ہیں لیکن خود کو زندہ درگور سمجھتے ہیں اور ان کی بوڑھی ماں اپنے شوہر کا انتظار کرتے کرتے تھک ہار کر اس سرائے فانی سے کب کی کوچ کر چکی ہیں۔

اب سنیے مشتری بیگم کی بپتا جو سرحد پار کے ایک گاؤں میں اپنے کنبے کے ساتھ رہتی تھیں۔ ایک شب بلوائیوں نے گاؤں پر اچانک دھاوا بول دیا اور نہایت بے رحمی کے ساتھ مسلمانوں کو کرپانوں کا نشانہ بنایا۔ اچانک ایک نوجوان سکھ کی نظر دوشیزہ مشتری پر پڑی لیکن اسے قتل کرنے کے بجائے وہ اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ ہوا یوں کہ مشتری کو دیکھ کر اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اسے اپنی بہن یاد آگئی جو اس سے ایک یا دو سال چھوٹی تھی اور تقریباً مشتری کی ہم عمر تھی اور ہو بہو اس کی بہن سے ملتی جلتی تھی۔

مشتری بیگم کا دنیا میں اب کوئی اور وارث باقی نہیں تھا۔ چاروناچار اسے اس سکھ کی فیملی کے ساتھ گزارنا پڑا۔ وقت گزرتا چلا گیا مگر مشتری بیگم نے مجبوراً حالات کا مقابلہ کیا پھر ایک روز اس نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب موقع پاکر وہ وہاں سے بچ نکل کر شہر پہنچنے میں کامیاب ہو گئی اور عدالت کے روبرو پیش ہو کر اپنی کہانی بیان کر دی۔ نوبت مقدمے تک جا پہنچی کیونکہ جس خاندان نے اسے اپنے ہاں رکھا تھا وہ اسے چھوڑنے کو ہرگز تیار نہ تھا۔

قصّہ کوتاہ قیام پاکستان کی کہانی اتنی پر سوز اور الم ناک ہے کہ اسے بیان کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ نہ جانے کتنی عظیم قربانیوں اور کتنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹا کر یہ پیارا وطن معرض وجود میں آیا تھا اور ہم ہیں کہ سب کچھ فراموش کرکے اس کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے باز نہیں آرہے۔

مشرقی پاکستان ہاتھوں سے نکلنے کے باوجود ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کی ہوس کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ ہر حکمراں وطن عزیز کی خدمت اور عوام کی حالت سدھارنے کے وعدے اور دعوے کرتا ہوا گدّی سنبھالتا ہے اور اپنا الّو سیدھا کرکے چلا جاتا ہے اور بیچارے عوام ہیں کہ انھیں ہر بار جھانسا دیا جاتا ہے۔

ہر سیاسی جماعت ملک کی خدمت کے نام پر کرسی اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہے اور الیکشن ہار جانے پر دھاندلی کا شور مچاتی ہے۔ سال پر سال گزر رہے ہیں اور عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی مدت اقتدار ختم ہونے کے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے اور مہنگائی میں بے لگام اضافہ کے سبب عام آدمی کی زندگی اجیرن ہورہی ہے اور جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہو رہا ہے۔

2023 کے آیندہ انتخابات سر پر ہیں اور ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ یہ انتخابات الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے یا اسی پرانی روش کے مطابق معلوم نہیں کہ کسی آخری نتیجے پر پہنچنے میں مزید کتنا وقت لگے گا اور انتظار کی گھڑیوں کا اختتام کب ہوگا۔

ہر سیاسی جماعت اس مدعے پر اڑیل ٹٹو بنی ہوئی ہے۔ مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عام انتخابات مقررہ وقت پر ہو بھی گئے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چناؤ میں فتح حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور وہ اپنے وعدوں کو کس حد تک نبھائے گی یا موجودہ حکومت کی طرح وعدہ فردا پر ٹرخا ٹرخا کر اپنے اقتدار کی میعاد پوری کرنے کے بعد عوام کو ٹھینگا دکھا کر آرام سے رخصت ہوجائے گی۔

قصّہ مختصر، یہ ہے جمہوری نظام اور بے بس عوام!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔