کراچی کا حقیقی مینڈیٹ

محمد سعید آرائیں  منگل 7 دسمبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ کراچی نے 1964 کے بعد پہلی بار ایک وفاقی جماعت کو ووٹ دیا ہے اور کراچی کی طرح ملک بھر میں عمران خان کے نام پر ووٹ پڑتا ہے۔

یہ حقیقت ضرور ہے کہ اس سے قبل کراچی میں ایم کیو ایم کے قائد کے نام پر اور 1970 کے بعد سے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے نام پر بھی ووٹ پڑتا رہا ہے مگر وہ کبھی اتنا متنازعہ نہیں تھا جتنا 2018 کے الیکشن میں ہوا۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کی کامیابی محض اس کی کامیابی نہیں تھی بلکہ تمام اپوزیشن الیکشن کمیشن کے فیل ہو جانے والے ایس آر ٹی سسٹم کو قرار دیتے ہیں جو خراب قرار دے کر پی ٹی آئی کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا تھا اور اسی وجہ سے گزشتہ انتخابات متنازعہ قرار دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی ہمیشہ اپوزیشن کا گڑھ رہا ہے اور کبھی کوئی قومی سطح کی یا حکومتی جماعت کو کراچی کا مینڈیٹ نہیں ملا البتہ قومی سطح کی دو سیاسی و مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کراچی کا حقیقی مینڈیٹ لے کر منتخب ہوتی رہیں اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جے یو پی کے شاہ فرید الحق مقرر ہوئے تھے۔

پیپلز پارٹی کے آغاز پر کراچی سے تعلق رکھنے والے اور اردو زبان بولنے والے متعدد رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے مگر بھٹو صاحب کے کزن اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو نے ان کی قدر نہیں کی تھی اور انھوں نے  کراچی کے اردو بولنے والے رہنماؤں کو نظرانداز کرکے اندرون سندھ کو ترجیح دی تھی جس پر کراچی میں پہلی بار لسانی فسادات ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ کی پارٹی بنا دیا تھا۔

ممتاز بھٹو کی غلط پالیسی کی وجہ سے وزیر اعظم بھٹو نے انھیں سندھ سے ہٹا دیا تھا اور اچھی شہرت کے مالک ضلع نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے معتدل سیاستدان غلام مصطفیٰ جتوئی کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا جنھوں نے کراچی اور اندرون سندھ میں پڑنے والی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش ضرور کی تھی مگر وہ ممتاز بھٹو کی پالیسی سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں کرسکے تھے مگر کراچی میں ان کے سیاسی کردار کی قدر کی جاتی تھی جس کے بعد 1977 میں ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں کراچی میں دو بڑی مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جے یو پی کا سیاسی زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم بنوائی گئی تھی۔ کراچی کی بڑی جماعت جماعت اسلامی تھی جو جنرل ضیا الحق کے دور میں چند ماہ ان کی کابینہ میں شامل رہی تھی اور جب جنرل ضیا نے 1979میں ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے تو جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی دو بار کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محدود وسائل میں کراچی میں معیاری ترقیاتی کام کرائے تھے مگر جنرل ضیا الحق کے 11 سالہ دور میں 1985 کے بعد سے سندھ کے وزرائے اعلیٰ اندرون سندھ ہی کے رہے اور انھوں نے بھی پیپلز پارٹی کی مخصوص پالیسی عمل جاری رکھا جس کی وجہ سے کراچی میں تعصب بڑھتا رہا تھا۔

بھٹو دور میں لسانی فسادات کے بعد سندھ میں جو کوٹہ سسٹم نافذ ہوا تھا اس پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو پیپلز پارتی کراچی میں اپنا ووٹ بینک بڑھا سکتی تھی مگر پی پی کی اندرون سندھ کی قیادت نے ممتاز بھٹو کی پالیسی جاری رکھی۔ کوٹہ سسٹم پر عمل نہ ہوا دس سالہ عصبیت بڑھانے والا کوٹہ سسٹم بڑھتا رہا جس پر موجودہ حکومت نے ماضی کی طرح توسیع کر رکھی ہے۔

ایم کیو ایم کے قیام اور اس کی مقبولیت کی وجہ سندھ کے شہری علاقوں سے زیادتی و ناانصافیاں تھیں جو اب انتہا پر پہنچا دی گئی ہیں۔ بے نظیر بھٹو دور میں 1989 میں سندھ میں لسانی فسادات کی وجہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اندرون سندھ قوم پرستوں کی سرپرستی تھی اور اب کراچی پر اندرون سندھ کے افسران حاکم ہیں اور سرکاری نوکریوں کے دروازے کراچی والوں کے لیے بند ہیں اور سندھ میں دو لسانی تعصب کے خاتمے پر 13 سال سے پی پی کی سندھ حکومت توجہ نہیں دے رہی اور پی پی کراچی کے بعض دیہی علاقوں تک محدود ہے۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے دور میں ملازمتیں ضرور ملیں مگر زیادہ تر اپنے کارکنوں کو نوازا گیا۔ پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتیں کہتی ہیں کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ جعلی ہے جو ایم کیو ایم کو ختم کرنے کے لیے دلایا گیا تھا۔ عمران خان کے نام پر کراچی کے بعض علاقوں میں  ووٹ ضرور پڑا مگر پی ٹی آئی حقیقی مینڈیٹ سے جیتی نہیں تھی اسے جتوایا گیا تھا۔ پہلے ایم کیو ایم دھاندلی سے کراچی کا جعلی مینڈیٹ جبری حاصل کرتی تھی جسے پی ٹی آئی بھی مانتی تھی مگر اب پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو کوئی نہیں مانتا اگر یہ حقیقی ہوتا تو وفاقی حکومت کراچی کے لیے کچھ ضرور کرتی اور وفاق سے کراچی کو اس کا حق ضرور ملتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔