کیا ’’ویاگرا‘‘ سے الزائیمر بیماری کا علاج ہوسکے گا؟

ویب ڈیسک  منگل 7 دسمبر 2021
ویاگرا استعمال کرنے والوں میں چھ سال بعد تک الزائیمر بیماری کا خطرہ 69 فیصد کم دیکھا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ویاگرا استعمال کرنے والوں میں چھ سال بعد تک الزائیمر بیماری کا خطرہ 69 فیصد کم دیکھا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کلیولینڈ: امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ’سلڈینافل‘ المعروف ’ویاگرا‘ سے ممکنہ طور پر دماغ کی خطرناک بیماری ’الزائیمر‘ کا علاج بھی کیا جاسکے گا۔

ریسرچ جرنل ’’نیچر ایجنگ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے یہ تحقیق ابتدائی نوعیت کی ہے جس میں الزائیمر بیماری کی ایک بہترین ممکنہ دوا کے طور پر ویاگرا کا نام بھی سامنے آیا ہے۔

اس تحقیق کےلیے لاکھوں افراد کی طبّی کیفیات اور جینیاتی ترکیب کا ایک وسیع ڈیٹابیس کھنگال کر، پروٹینز کے باہمی عمل (پروٹین پروٹین انٹریکشنز) پر مبنی ایسی نشانیاں تلاش کی گئیں جو آنے والے برسوں میں الزائیمر بیماری کی وجہ بنتی ہیں۔

طاقتور کمپیوٹروں اور خصوصی الگورتھمز کی مدد سے سائنسدانوں نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد پروٹین پروٹین انٹریکشنز کا تجزیہ کیا؛ اور ان میں سے الزائیمر بیماری کی وجہ بننے والے انٹریکشنز شناخت کرکے الگ کیے۔

اگلے مرحلے میں ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ کی منظور کردہ 1600 سے زیادہ دواؤں میں سے وہ ادویہ تلاش کی گئیں جو اُن پروٹین پروٹین انٹریکشنز میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹ ڈال سکیں جو الزائیمر بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

اس مرحلے پر جو دوائیں الزائیمر بیماری کی روک تھام میں بہتر دکھائی دیں، ان میں ’ویاگرا‘ سرِفہرست تھی جو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ’’مخصوص مردانہ گولی‘‘ کے طور پر استعمال ہورہی ہے جبکہ کئی ملکوں نے اسی وجہ سے ویاگرا پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے (ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے)۔

البتہ، ماہرین نے اپنی مزید تسلی کےلیے امریکا میں 70 لاکھ سے زائد عمر رسیدہ افراد کی جانب سے دائر کیے گئے انشورنس کلیمز، ان لوگوں میں مختلف ادویہ کے استعمال اور الزائیمر بیماری کے واقعات کا بہت باریکی سے تجزیہ کیا۔

اس تجزیئے سے بھی یہی معلوم ہوا کہ جن افراد میں ابتدائی معائنے کے بعد الزائیمر کا خطرہ سامنے آیا تھا، ان میں سے ’’ویاگرا‘‘ استعمال کرنے والے لوگوں میں چھ سال بعد تک الزائیمر کا خطرہ 69 فیصد کم تھا۔

مطالعے کے مصنّفین نے خبردار کیا ہے کہ فی الحال اس تحقیق سے ہر گز یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ویاگرا واقعتاً الزائیمر بیماری کا علاج ہے۔ ابھی صرف ویاگرا کے استعمال سے الزائیمر بیماری کے امکانات میں کمی ہی ہمارے سامنے آئی ہے۔

کیا ویاگرا واقعی میں الزائیمر بیماری کا علاج کرسکتی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کےلیے ہمیں ایک اور تفصیلی لیکن محتاط تحقیق کی ضرورت ہوگی؛ اس سے پہلے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

البتہ اچھی بات یہ ہے کہ ویاگرا پہلے ہی ’’ایف ڈی اے‘‘ سے منظور شدہ ہے، لہٰذا الزائیمر کےلیے اس کے استعمال میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں الزائیمر بیماری کے 65 لاکھ سے زیادہ مریض ہیں جن میں سے بیشتر کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہے۔

الزائیمر بیماری میں یادداشت تیزی سے کمزور ہوتی ہے؛ دماغ ہر وقت الجھن میں مبتلا رہتا ہے؛ نئی چیزیں سیکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے؛ پڑھنے، لکھنے اور حساب کتاب کرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور یہ کیفیت بھی بڑھتی جاتی ہے؛ سوچ منتشر رہنے لگتی ہے اور ہر وقت عجیب و غریب خیالات کا دماغ پر غلبہ رہنے لگتا ہے؛ زیادہ دیر تک کسی چیز پر توجہ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے؛ جبکہ بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے میں بھی پریشانی ہونے لگتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق، دنیا بھر میں 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہر 9 میں سے ایک فرد (11.3 فیصد) کو الزائیمر بیماری ہوجاتی ہے جبکہ 75 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 72 فیصد بزرگوں میں یہ بیماری دیکھی گئی ہے۔

الزائیمر بیماری اب تک لاعلاج ہے لیکن اگر ویاگرا اسے روکنے میں واقعی مددگار ثابت ہوئی تو دماغ کی بہت سی مہنگی دواؤں کے مقابلے میں یہ بہت کم خرچ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔