تیر سے شیر کیسے ہوا گھائل؟

سید امجد حسین بخاری  بدھ 8 دسمبر 2021
کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں مقبولیت حاصل کررہی ہے؟ (فوٹو: فائل)

کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں مقبولیت حاصل کررہی ہے؟ (فوٹو: فائل)

ماڈل ٹاؤن پارک سے نکلتے ہی لنک روڈ اور پیکو روڈ پر دیدہ زیب بینرز، قد آدم لگی سیاسی قیادت کی تصاویر اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نغمے اب تھم چکے ہیں۔ اب ان سڑکوں پر دکانداروں کی صدائیں اور چنگ چی رکشوں کا شور ہے۔ اسی خامشی اور شور کے بیچ لاہور کے سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں، پیشگوئیاں، اندر کی باتیں اور بریکنگ تجزیے موضوع بحث ہیں۔ ہر سیاسی ورکر پیپلز پارٹی کے ریکارڈ ووٹ بینک پر حیران جبکہ بلاول ہاؤس میں جشن کا سا سماں ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 ہزار سے 32 ہزار ووٹس کا سفر کیسے طے کیا؟ کیا آصف زرداری کی مفاہمت اور سیاسی نظر نے پی پی کی جیت میں کردار ادا کیا؟ کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں مقبولیت حاصل کررہی ہے؟ پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی متبادل تو نہیں بن رہی؟ کیا پنجاب میں جیالے پرانی محبت سے رجوع کر رہے ہیں؟ ان ہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کےلیے لاہور کے سیاسی حلقوں سے ملاقاتیں کیں، مگر ہر جانب سے ایک ہی بیانیہ سننے کو ملا۔ پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر تیار کیا جارہا ہے، اس لیے مقتدر حلقے پیپلز پارٹی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس بیانیے کی جھلک منگل کی شب بلاول ہاؤس میں آصف علی زرداری کے خطاب میں بھی دیکھی گئی۔

متبادل کے بیانیے کی صداقت کا جائزہ لینے کےلیے میں نے الیکشن مہم اور دیگر حقائق کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ گو کہ حلقے میں ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا، مگر پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بڑھنے کی وجوہات کچھ اور ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بڑھنے کی وجہ مسلم لیگ ن کی حد سے زیادہ خوش فہمی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن نے صرف اس بنیاد پر حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلائی کہ یہ تو ہمارا اپنا ہی حلقہ ہے، یہاں الیکشن کیمپین چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حلقے کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے حلقے میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ سندھ کابینہ کے وزرا، پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت، ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹرز، سبھی نے حلقے میں انتخابی مہم چلائی۔ جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا مگر خوش فہمی نے مسلم لیگ ن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حلقے کا انتخابی نتیجہ پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کےلیے بھی ایک امتحان تھا۔ وہ اس امتحان پر پورا اترے اور پارٹی کو پنجاب میں امید کی ایک کرن دکھائی دینے لگی۔

پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بڑھنے کی تیسری بڑی وجہ تحریک انصاف، عوامی تحریک اور تحریک لبیک پاکستان کی خاموش حمایت بھی تھی۔ ناصر حسین شاہ کی سعد رضوی سے ملاقات ہو یا کارنر میٹنگز میں عوامی تحریک کے رہنماؤں کی شرکت، پیپلز پارٹی نے ہر موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ حلقے میں اثر رکھنے والی تینوں سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ ن کی مخالفت میں پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو پارٹی کے حق میں باگڑیاں، گرین ٹاؤن اور مریم کالونی کے لوئر کلاس طبقات سے زیادہ ووٹ ملے۔ جبکہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے علاقوں سے پیپلز پارٹی امیدوار کو ووٹ نہیں مل سکے۔ اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی پر ووٹ خریدنے کے الزامات عائد کیے گئے مگر ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ یہ واحد الیکشن ہے جس پر مسلم لیگ کامیابی پر خوش، تحریک انصاف کم ٹرن آؤٹ پر شادمان جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ریکارڈ ووٹ لینے پر بھنگڑے ڈال رہی ہے۔ انتخابی عمل پر نہ تو کوئی سوال ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن سے کوئی شکوہ کیا جارہا ہے، تاہم سابق صدر آصف علی زرداری کو اب بھی شکوہ ہے کہ ووٹ تو 50 ہزار پڑنے چاہیے تھے۔ یہ یقین، یہ دعویٰ، یہ اعلان، یہ امید آصف علی زرداری جیسے زیرک سیاست دان اور مرد بحران ہی کرسکتے ہیں مگر انہیں بھی شاید تصویر کے اصل رخ کا اندازہ نہیں ہے۔

این اے 133 میں دوبارہ سے زندگی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس انتخاب کی بنیاد پر 2023 کے عام انتخابات کے حوالے سے پیشگوئیاں کی جارہی ہیں۔ نئے کھلاڑیوں کے بجائے پرانے سورماؤں کو آزمانے کا بیانیہ تشکیل دیا جارہا ہے مگر حلقے کے ٹرن آؤٹ نے سیاست دانوں کےلیے نئی پریشانی کھڑی کردی ہے، جسے بروقت دیکھنا ہوگا۔

گزشتہ سوا تین برس کے دوران عوام جس کرب سے گزرے ہیں، ان بیتے دنوں کی تلخیوں میں عوام سیاسی قیادت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اب بریانی کی ایک پلیٹ اور قیمے والے نان سے عوام کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ عوام کو عملی اقدامات چاہئیں۔ 2018 سے 2021 کے دوران عوام کو سیاسی قیادت نے ناامید کیا ہے۔ مہنگائی کے خلاف حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں عوامی حقوق کےلیے سامنے آئیں۔

عوام اب روایتی سیاست سے مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ اب کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں، جو ان کے رِستے زخموں پر مرہم رکھے، جو ان کے پیٹ پر بندھے بھاری پتھر ہٹا سکیں، جو ان کی آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر دے سکے۔ انہیں وہ مسیحا جس شکل میں ملے گا ان کےلیے قابل قبول ہوگا۔

مسلم لیگ ن کو جیت مبارک، پیپلز پارٹی کو ووٹ بینک بڑھنے پر مبارکباد، خدا پاکستان تحریک انصاف کی خوشیاں بھی سلامت رکھے، مگر عوام کی مایوسی سیاسی قیادت کےلیے غور طلب ہے۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے مصداق، عوامی حقوق کی لڑائی سبھی کو لڑنا ہوگی۔ ورنہ تمھاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔