مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ناگزیر

ایڈیٹوریل  بدھ 8 دسمبر 2021
عوامی زندگی ایک اجنبی حکومت اور بے نیاز ریاستی نظام کے ساتھ ترقی کرتے گئے فوٹوفائل

عوامی زندگی ایک اجنبی حکومت اور بے نیاز ریاستی نظام کے ساتھ ترقی کرتے گئے فوٹوفائل

مورخ اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ عسکری اور سیاسی تبادلہ خیال، ملکی اور سماجی صورتحال کا شعور پیدا کرنے کے لیے سماج میں ضمیر اور شعور کی ترویج کے لیے نصابی تعلیم تک محدود رہتے ہیں، یہ انداز فکر ان 74 سالوں میں پختہ ہو چکا ہے، اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا، کیونکہ اس عرصہ میں درجنوں نظام آئے، حکومتیں آتی جاتی رہیں، عوام کو بدترین معاشی مسائل نے ادھیڑ کر رکھ دیا، سیاسی شور وغل، بے ہنگم بیانیوں کی جنگ اور سیاسی جوڑ توڑ نے قوم کو ایک سیاسی یکجہتی سے جوڑنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔

عوامی زندگی ایک اجنبی حکومت اور بے نیاز ریاستی نظام کے ساتھ ترقی کرتے گئے، جس کا نتیجہ قوم نے گزشتہ چند عشروں میں دیکھ لیا، میڈیا آج ذمے دار، بیدار، آزاد اور بے باک ہوگیا ہے، کوئی چیز ذرایع ابلاغ سے چھپی نہیں رہ سکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طوفان سر سے گزر جاتے ہیں، ہلاکتیں ہو جاتی ہیں ہجومی نفسیات تباہی مچا دیتی ہے۔

ارباب اختیار کی بے نیازی اس روز صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی رٹ کہیں بھول جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں سری لنکن شہری کو ایک انبوہ نے فیکٹری کے اندر مار ڈالا اور جلا ڈالا، اس واردات نے ملک کی بنیادیں ہلادیں، ہماری جمہوریت کو شدید دھچکا لگا، واقعہ ایک فیکٹری کے اندر ہوا تھا لیکن ارباب اختیار کو اس ہجوم، فیکٹری انتظامیہ، سری لنکن منیجر کے بارے میں کوئی ابتدائی اطلاع نہیں تھی، کسی کو خبر ہی نہیں تھی کہ سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں کیا ہونے جا رہا ہے۔

کیونکہ جب وارداتوں، قتل وغارت اور جرائم کی کسی معاشرے کو عادت پڑ جائے تو اس کی انتظامی مشینری کا ضمیر سو جاتا ہے، جب کہ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ضمیر حکومتوں کی پیروی و رہنمائی کرتا ہے، دنیا ایک بین الاقوامی نظام کو بنے ہوئے دیکھ رہی ہے، امن پر مامور حکام اس حقیقت کا علم رکھتے ہیں کہ ایک دن کی جنگ چاہے وہ کہیں بھی ہو، شہر، فوج، معمولات زندگی، آزادی، اور کاروبار کو جنگی بربریت سے تباہ کر دیتی ہے۔

2014 میں سیاسی اور عسکری قیادت نے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی اور فیصلہ کیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ ترجیحی بنیادوں پر عمل کیا جائیگا، لمحہ فکریہ ہے کہ 7 برس گزرنے کے باوجود مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے 20 میں سے 9 نکات پر عمل نہ ہو سکا، پیر کو پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں بھی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے بات ہوئی اور وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو اعتراف کرنا پڑا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض نکات پر ایکشن نہ ہونے کی وجوہات کا جائزہ لیں گے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔

نفرت انگیز تقریروں و مواد کی تشہیر، فرقہ وارانہ تعصبات اور نظریات کو روکنے، مدارس کی بینکوں کے ذریعے فنڈنگ،ا نٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر زہریلے نظریات کے پرچار کو روکنے کے فیصلہ کن اقدامات کی بات کی گئی تھی، ان میں سے بعض نکات پر جزوی عمل ہوا یا بالکل نہیں کیا گیا، اس حوالے سے بیشتر کام صوبوں نے کرنا تھا اور مرکز میں نیکٹا کے ذریعے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کرنا تھی، نیکٹا بھی اب زیادہ فعال نہیں رہا، سانحہ سیالکوٹ نے وطن عزیز میں شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے رجحانات پر ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی، حالیہ برسوں میں مذہب کے نام پر عدم برداشت و رواداری اور ریاست میں اقلیتوں کو برابری کی بنیاد پر آئینی حقوق کی فراہمی کے اہم امور سوالیہ نشان بنے رہے۔

قوم کی تربیت کے لیے نیشنل ایکشن پلان نے پارلیمان کے ساتھ، داخلہ، خارجہ، تعلیم، مذہبی ہم آہنگی اطلاعات و نشریات، آئی ٹی، قانون و انصاف وپارلیمانی امور، حقوق انسانی، دفاع سمیت 11 وفاقی وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اہم ٹاسک دیے تھے، حالیہ برسوں میں پارلیمنٹ کے سامنے کوئی ایسی رپورٹ زیربحث نہیں آئی جس میں بتایا گیا ہو کہ نیشنل ایکشن پلان کے اہداف پر کس حد تک عمل کرنے میں کامیاب رہے، اس دوران مذہبی رواداری کے فقدان کے کئی مظاہروں نے پاکستان کا تشخص مجروح کیا۔

پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے مذہبی تعصبات کی فروغ پذیر اور شدت پسندانہ رویوں کو پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے الارمنگ اور سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 1987سے 2021 کے درمیان پاکستان میں توہین مذہب قوانین کے تحت 1865 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی، صورت احوال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہجومی انصاف کے تباہ کن رجحانات سے تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے۔

2017 میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان کو تشدد کر کے قتل کر دیا، نومبر 2020 میں قائد آباد خوشاب میں سیکیورٹی گارڈ نے توہین مذہب کے الزام میں بینک منیجر کو قتل کر دیا، مشال خان کیس کے 57 میں سے 25 ملزمان سزا پا چکے اور بعض سزا مکمل کر کے رہا ہو چکے، 23 دسمبر کو سیالکوٹ میں سری لنکن باشندے پر تشدد ہلاکت اور لاش نذر آتش کرنے کے واقعہ سے قبل 15 اگست 2010 میں سیالکوٹ میں ہی ہجومی انصاف کا دل خراش واقعہ ہوا اور چوری کے الزام میں دو نوجوان بھائیوں کو ہجوم نے ایک چوک میں سر عام تشدد کر کے قتل کر دیا گیا، 9 ملزم پکڑے گئے اور 8 اپریل 2016 کو 7 ملزموں کو سزائے موت دیدی گئی، کوٹ رادھا کشن میں نومبر 2014 میں توہین مذہب پر میاں بیوی کو ہجومی انصاف کے ذریعے تشدد سے قتل کر کے لاشیں جلا دی گئیں۔

دوسری جانب لسانی اور مذہبی فرقہ واریت میں قتل وغارت میں بے شمار انسانی جانیں ضایع ہوئی، ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار میں جنگ چھڑی جس میں شہر قائد اور لیاری کو گینگ وار کی چنگاری نے بہت نقصان پہنچایا ہے، گینگ وار لیاری کے چار تھانوں کی حدود میں جاری رہی لیکن رفتہ رفتہ اس کی لپیٹ میں کراچی کے دیگر علاقے بھی آگئے، جب رحمن ڈکیت کی ہلاکت کے بعد عذیر بلوچ منظر عام پر آئے تو کراچی میں قانون کی حکمرانی گینگ وار کے قدموں کے نیچے تھی، چوہدری اسلم پولیس کارروائی کی نگرانی کر رہے تھے۔

پولیس کی بے بسی، بزدلی اور گینگ وار کارندوں کے ظلم وستم کے باعث پولیس کی مدد کے لیے رینجر کو تعینات کرنا پڑا، کراچی میں لاقانونیت عروج پر تھی۔ جرائم پیشہ عناصر بے قابو ہوچکے تھے، عذیر بلوچ سندھ، بلوچستان اور ایران سے نکل کر دبئی فرار ہوگئے ان پر قتل کے علاوہ لاتعداد کیسز درج کیے گئے ہیں ان کا کیس ابھی عدالت میں ہے۔ لیاری میں گینگ وار کی وارداتوں نے علاقے کے سیاستدانوں، فٹبالرز اور محنت کشوں کو شدید اعصابی تناؤ اور خوف میں مبتلا رکھا۔

کراچی کے اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر قائد جنگل کے قانون کا منظر پیش کرتا ہے، سیاسی طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم مافیاؤں کے رحم و کرم پر ہے، شہری روز لٹتے ہیں، آبادی بے پناہ بڑھ چکی ہے، ماس ٹرانسپورٹ کے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے، کراچی سرکلر ریلوے کو جیسے تیسے کرکے مکمل کیا گیا مگر اسے بھی مسائل کا سامنا ہے، ٹرانسپورٹ مافیا اور سرکلر ریلوے میں ٹھن چکی ہے، بعض سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کو ارباب اختیار کہاں چلائیں گے، اس کے لیے تو تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کارروائی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جو رٹ درکار ہے وہ سندھ حکومت اور وفاق کہاں سے لائے گی ۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک کو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے پورے سیاسی سسٹم کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے، ازکاررفتگی، انتظامینا اہلیت، بے حسی، کرپشن اور بے پناہ آبادی نے شہر کو جنگل بنا دیا ہے، سیاسی و عسکری قیادت جن مسائل پر آج سوچ بچار کر رہی ہے اس پر حکمرانوں نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا تو شہر اپنے بوجھ تلے دب جائے گا۔ پیرزادہ قاسم کا شعر ہے کہ

شہر اگر طلب کرے تجھ سے علاج تیرگی

صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔