میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 8 دسمبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

معروف صحافی ضیاء الدین صاحب وینٹی لیٹر پر زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ ضیاء الدین ایمانداری، معروضیت، ادارتی آزادی، آزادیٔ صحافت اور صحافیوں کے حالاتِ کار کی بہتری کی جدوجہد کی ایک ایسی روایت چھوڑ گئے جو نوجوان صحافیوں کے لیے سرنگ کے آخری حصہ میں جلنے والی شمع تھے۔

ضیاء الدین ہندوستان کی ریاست میسور میں پیدا ہوئے۔ میسور نواب ٹیپو سلطان کی بہادری کی وجہ سے ان کے نام سے منسوب ہے۔ ضیاء الدین صاحب نے جرأت اور بہادری سے زندگی گزاری۔ ان کے والدین ہجرت کر کے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکا آگئے۔ ضیاء الدین صاحب نے ڈھاکا یونیورسٹی سے بی فارمیسی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی آگئے۔جب ضیاء الدین صاحب ڈھاکا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے تو وہاں ترقی پسند اور قوم پرست طلبہ تنظیمیں فعال تھیں۔

اس بار کا امکان ہے کہ ضیاء الدین اسی دور میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے۔ جب وہ کراچی آئے تو کراچی یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کا آغاز ہوا تھا۔ ضیاء الدین شعبہ صحافت کے پہلے بیج کے طالب علم تھے۔ اس وقت بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن فعال تھی۔ حسین نقی، جوہر حسین اور فتحیاب علی خان وغیرہ این ایس ایف کے قائدین میں شامل تھے۔ سینئر صحافی صدیق بلوچ جو اس وقت کراچی یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے طالب علم تھے نے بتایا تھا کہ این ایس ایف نے اپنا ترجمان اسٹوڈنٹس ہیرالڈ انگریزی اور اردو میں طالب علم شایع کرنا شروع کیا تھا۔

ضیاء الدین اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کے ایڈیٹر تھے۔ ضیاء الدین صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز غیر سرکاری خبر رساں ایجنسی پاکستان پریس ایجنسی سے کیا جو ایجنسی 1966میں پی پی این آئی بن گئی۔ ضیاء الدین اقتصادی صحافت کے معماروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے 70ء کی دہائی میں کراچی سے انگریزی میں اقتصادیات پر ایک ہفت روزہ پاکستان اکنامکس شایع کیا۔ اس وقت کے معروف صحافی اور فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ سے ریٹائر ہونے والے میجر ریٹائرڈ ابن الحسن اس کے ایڈیٹر تھے۔

ضیاء الدین نے اس ہفت روزہ میں فنانس اور اکنامکس کے امور پر رپورٹنگ شروع کی اور پھر اس موضوع پر ایسی مہارت حاصل کی کہ یہ دونوں موضوع ان کے کیریئر کا لاحقہ بن گئے۔ ضیاء الدین کراچی یونین آف جرنلسٹس کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ کراچی پریس کلب کی سرگرمیوں میں فعال ہوئے۔ کراچی میں ہی ان کی ملاقات منہاج برنا سے ہوئی، وہ ساری زندگی برنا صاحب کی جدوجہد کو آئیڈیالائز کرتے رہے۔ اچھے روزگار کی تلاش انھیں نیشنل پریس ٹرسٹ کے کراچی سے شایع ہونے والے اخبار مارننگ نیوز لے گئی جہاں وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کا دور تھا۔

5 جولائی 1977 کو ملک کی تاریخ کے سیاہ دور کا آغاز ہوا۔ ضیاء الدین صاحب فوجی آمریتوں کو اس ملک کے لیے زہر قاتل جانتے تھے۔ اس وقت مارننگ نیوز کے ایڈیٹر ایس آر غوری تھے۔ ضیاء الدین صاحب نے اپنی نوکری کو داؤ پر لگایا اور ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے حق میں اداریہ لکھیں گے نہ کوئی آرٹیکل تحریر کریں گے۔ غوری صاحب بڑے صحافی تھے۔ انھوں نے یہ بات مان لی۔ ضیاء الدین صاحب نے بتایا کہ اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات میجر جنرل مجیب الرحمن مارننگ نیوز میں ضیاء الدین صاحب کی موجودگی سے نالاں تھے۔

وہ ایڈیٹر پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ان کی برطرفی کے لیے کچھ کریں۔ بنگلہ دیش کے فوجی آمر جنرل ضیاء الرحمن کو فوجیوں کے ایک گروپ نے فائرنگ کر کے ہلاک کیا تو ضیاء الدین نے ایک ایسا اداریہ لکھا جس میں سارا ذکر تو مقتول صدر ضیاء الرحمن کے بارے میں تھا مگر غور سے پڑھنے سے محسوس ہوتا تھا کہ اس اداریہ کا محور جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ سرکاری اخبار میں اس اداریہ کی اشاعت پر اسلام آباد میں بحرانی کیفیت پیدا ہوئی۔

سرکار نے ایڈیٹر ایس آر غوری کو پیغام بھیجا کہ وہ ضیاء الدین کو اب مارننگ نیوز میں دیکھنا نہیں چاہتے ۔ ضیاء صاحب نے ایک انٹرویو میں راقم کو بتایا تھا کہ ایس آر غوری دائیں بازو کے نظریات کے پیروکار تھے۔ میرا ان سے نظریاتی اختلاف تھا مگر غوری صاحب نے عظیم ایڈیٹروں کی روایات کی پاسداری کی اور مجھ سے کہا کہ ایک ہفتہ کی چھٹی کی درخواست دے دو، باقی میں سنبھال لوں گا۔ پھر ضیاء الدین صاحب اسلام آباد سے شایع ہونے والے پہلے انگریزی کے اخبار دی مسلم میں ملازم ہوئے۔ وہ مسلم ایمپلائیز یونین کے بانیوں میں شامل تھے مگر 40 کے قریب دیگر صحافیوں کے ساتھ وہ بھی ملازمت سے برطرف ہوئے۔

پھر روزنامہ ڈان اسلام آباد بیورو میں سینئر رپورٹر ہوگئے۔ وہ فنانس اور اکنامکس کی رپورٹنگ کرتے تھے۔ ان کی ہر خبر حکومت کو مشکل میں ڈالتی تھی۔ پہلے تو انھیں مختلف ترغیبات دی گئیں ،پھر حکومت نے خفیہ پولیس والے نگرانی پر لگا دیے۔ 1997 میں انھیں اور غازی صلاح الدین صاحب کو آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کے انٹرویو کے لیے پی ٹی وی سینٹر میں مدعو کیا تھا۔ضیاء الدین صاحب نے اس انٹرویو میں آصف زرداری سے ان کی دولت میں اچانک اضافہ پر بھرپور سوالات کیے۔

یہ انٹرویو کبھی پی ٹی وی سے نشر نہ ہوا۔ پھر ضیاء الدین نے بتایا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت ان سے مسلسل ناراض رہی۔ ضیاء الدین لندن میں رپورٹنگ کر رہے تھے تو پاکستانی کمیونٹی کا ایک اجتماع تھا۔ ضیاء صاحب نے موقع ملتے ہی ایک چبھتا ہوا سوال کیا۔ جنرل پرویز مشرف مشتعل ہوئے اور غصہ میں کہا کہ اسے کوئی ٹھوکنے والا ہے۔ ضیاء الدین سمجھتے تھے کہ بھارت سمیت تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضیاء الدین امتیاز عالم اور آئی اے رحمن وغیرہ کے ساتھ بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش کے صحافیوں کو جوڑنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔

انھوں نے چند ماہ قبل راقم اور ڈاکٹر عرفان عزیز کی کتاب ’’پاکستان میں میڈیا کا بحران‘‘ کے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ آزادیٔ اظہار اور جاننے کے حق کے تحفظ کے لیے صحافیوں کی جدوجہد یونانی بادشاہ Sisyphus کی اس کہانی کی مانند ہے جس میں اسے ایک بھاری بھرکم چٹان کی پہاڑی کی چوٹی تک پہنچانے کی سزا سنائی گئی تھی اور ہر مرتبہ یہ بھاری چٹان چوٹی کے قریب پہنچ کر Sisyphus کے ہاتھوں سے بے قابو ہو کر پہاڑی کے قدموں میں پہنچ جاتی تھی۔

پاکستان کے صحافی بھی گزشتہ 74 برسوں سے Sisyphus کی طرح طاقت ور طبقات کے خلاف بظاہر کبھی نا ختم ہونے والی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ضیاء صاحب کی خواہش تھی کہ پی ایف یو جے پھر متحد ہو جائے، یہ خواہش نامکمل رہ گئی۔ ضیاء الدین آزادیٔ صحافت کے سپاہی تھے۔ صحافی و شاعر خالد علیگ نے کچھ یوں کہا تھا:

مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہد سیاہ میں

وہ چراغ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں

یہ اشعار ضیاء الدین صاحب ہی کے لیے تھے۔

معذرت: پیپلز پارٹی اور حیدرآباد کے عنوان سے شایع ہونے والے آرٹیکل میں تاریخ کی کچھ غلطیاں رہ گئی تھیں، درست تاریخیں یہ ہیں:

ایم کیو ایم نے 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ ایم کیو ایم نے 1987 کے بلدیاتی انتخابات اور 1988 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ حیدرآباد میں ہجوم پر فائرنگ 1988 میں ہوئی تھی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کالی موری میں مستقل پرنسپل کا تقرر ہوچکا ہے۔ اردو اسپیکنگ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر وہاں وائس چانسلر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔