ٹریلین ٹری اورایلین ٹری

سعد اللہ جان برق  بدھ 8 دسمبر 2021
barq@email.com

[email protected]

ملین ٹری بھی ٹھیک ہے کیوں کہ کھیتوں، فصلوں اور زراعت کو ’’گھر‘‘تک پہنچانے کے لیے ملین ٹریزبھی کافی ہیں، ایک طرف سے کنسٹرکشن اوردوسری طرف ’’ٹریز‘‘کے سائے ہیں، زراعت خوب خوب ترقی کرلے گی جوحکومت اورپھرخاص طورپر ہمارے صوبے کے وزیراعلیٰ کے بیانات کی ترجیج نمبرنوسوننانوے ہے۔ لیکن ہماراخیال ہے کہ اگر ملین کی جگہ ٹریلین ٹری ہوجائے تو دودفعہ ٹری ٹری کے ساتھ اگر دوچار ٹری اورلگائیں توقوالی کی اچھی خاص دھن تیارہوسکتی ہے۔

خیریہ تو ویسے ہی بیچ میں ملین ٹریلین ٹری نے انٹری ڈال دی ہے، ہم اصل بات ’’ایلین ٹری‘‘کی کرناچاہتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں خاص طرپر سوات  میں توصدیوں پرانے ’’ٹری‘‘ ہوا کرتے تھے، وہ نامعلوم طریقے پر غائب ہورہے ہیں۔ چشم دید اورچشمہ دید لوگوں کاکہناہے کہ یہ ’’ٹریز‘‘ نہ جانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں اورکیسے غائب ہو جاتے ہیں کیوںکہ راستوں پر دوہری چیکنگ ہوتی ہے۔ ایک سرکاری اورایک قومی،لیکن پھر بھی پہاڑ مسلسل ’’گنجے‘‘ ہورہے ہیں چنانچہ صرف ایک ہی راستہ رہ جاتاہے اوروہ خلا کا ہے، شاید کسی سیارے کی مخلوق کے ہاں تعمیراتی کام کے لیے لکڑی دستیاب نہ ہو اورایلنزچپکے سے سوات میں لینڈ کرکے اپنی اڑن طشتریوں میںدرختوں کو لوڈ کرکے اپنے سیارے تک لے جارہے ہیں۔

اگرآپ کویاد ہوگا تو ایک مرتبہ ہم نے ان ہی کالموں میں ایلنزکے وجود کوناممکن قراردیاتھا لیکن اب شبہ ہورہاہے کہ شاید ہماری سمجھدانی میں کوئی فالٹ ہواورایلنزواقعی ہوں ۔ سوات کے کوہستانوں میں کون دیکھنے والاہوتاہے کہ کون آیا،کون گیا،کیالایااورکیا لے گیا۔ یقین کیاہے ،گمان کیاہے، اس لیے ہمارابھی۔

مٹ گیا ذوق یقین نقش گماں سا رہ گیا

رک گئیں آہیں فقط دل میں دھواں رہ گیا

اس کے سوا اورکوئی امکان ہونہیں سکتاکیوں کہ وہ سیکڑوں سالہ قدیم اور نایاب درخت کسی انسان یا مروجہ ٹرانسپورٹ کے بس کے تو تھے نہیں اورراستوں پر ہم نے کہا نا کہ سخت چیکنگ ہوتی ہے ،لامحالہ ایلنز کے وجود کوتسلیم کرناپڑے گا،یہ تو بہت بڑی کائنات ہے، اس میں کچھ بھی ہوسکتاہے،ویسے ایلین تو ایلین ہوتے ہیں ،کوئی بھی شکل یاروپ اختیار کرکے آسکتے ہیں ،عین ممکن ہے کہ دن دیہاڑے بھی کسی مقامی باشندے کاروپ  دھار کر آتے ہوں مثلاً پہاڑی لوگوں جیسے حلیے اورلباس میں آسکتے ہیں،سرکاری اہل کاروں مثلاً محکمہ جنگلات والوں کی ’’ٹوپیاں‘‘پہن کر آسکتے ہیں ،پولیس والوں کے روپ میں آسکتے ہیں ،مطلب یہ کہ آپ سمجھ گئے نا۔

ایلین تو ایلین ہوتے ہیں اورپھر یہ تو ’’ٹری ایلین‘‘ ہیں ۔بہرحال القصہ مختصر کہ ان پرانے دیودار وغیرہ کاقصہ مختصر ہورہاہے جو صدیوں سے زندہ ہیں اور اب بوڑھے ہوچکے ہیں،ظاہرہے کہ بوڑھوں کوجتنا جلد ٹھکانے لگایاجائے اتنا ہی بہتر ہے ۔

ہیروڈوٹس نے اپنی کتاب ہسٹوریا میں اسی قرب وجوارکے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں کچھ قبائل ایسے بھی ہیں جوبوڑھا ہونے پر اپنے بزرگوں کو زمین وغیرہ  میں دفن کرکے یاجلاکر ٹھکانے نہیں لگاتے بلکہ نہایت اوراحترام کے ساتھ ان کو اپنے ’’پیٹ‘‘ میں اتار لیتے ہیں جب کوئی بوڑھاہوجاتاہے تو اس کے عزیزاس پر نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں بڈھا بھاگ نہ جائے اورہمیں اپنے لذیذ اوربابرکت گوشت سے محروم نہ کرے۔

پھر ایک دن سب اکٹھے ہوکربڈھے کاتیاپانچہ کر دیتے ہیں اوراس کاگوشت نہایت عقیدت سے کھاتے ہیں بلکہ قریبی عزیزوں اوریاروں دوستوں کوبھی بھیجتے ہیں کہ کل کلاں کووہ اپنے کسی بڈھے کی دعوت میں ہمیں بھی شریک کریں اوریہ نہ کہیں کہ تم نے اپنے بزرگ  کاسب کچھ کھالیا اورہمیں چند بوٹیاں بھی نہیں دیں توہم کیوں اپنے بڈھے کاگوشت تمہیں دیں۔

اکثر بچارے بڈھوں کواپنے انجام کاپتہ ہوتاہے کیوں کہ وہ بھی اپنے بزرگوں کونگل چکے ہوتے ہیں، اس لیے بھاگنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن شکاری بھی ان کی سخت نگرانی کرتے رہتے ہیں اوریہاں تو ’’درخت‘‘ ہیں جو بھاگ بھی نہیں سکتے ،بچارے اس لیے حصے بخرے ہوکرمکانوں بنگلوں وغیرہ کے ’’پیٹ‘‘ میں چلے جاتے، کھڑکی، دروازے بن کر ۔

ہمارا خیال ہے کہ ان ’’ایلنز‘‘ سے درختوں کو بچانے کے لیے صرف ایک آپشن ہے اوروہ یہ کہ ان بوڑھے درختوں کوخود ٹھکانے لگا دیا جائے، ویسے بھی ’’ٹریلین ٹری‘‘ پروگرام تو ہے، پھر ان بڈھوں کی کیاضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔