سمجھ میں نہ آنے والی باتیں

مقتدا منصور  اتوار 9 فروری 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بلاول بھٹو زرداری اپنے نظریات کے حوالے سے جس جرأت مندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ ان تمام لوگوں کے لیے طمانیت کا باعث ہے، جو اس ملک کو ایک مہذب و شائستہ ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ تاریخ کے بعض حقائق نہایت تلخ ہوتے ہیں۔ جس خرابیِ بسیار پر آج وہ اور اس کی جماعت ماتم کناں ہیں اور موجودہ حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس کی کڑیاں اس کے  نانا  کے بعض فیصلوں میں پیوست نظر آئیں گی۔ لیکن اس کے باوجود اس نوجوان کا جو ہماری جگہ لینے والی نسل کا نمایندہ ہے، جرأت رندانہ کا مظاہرہ قابل فخر ہے۔

تقسیم ہند سے قبل برصغیر میں ایسے صاحبِ علم و عمل جید علماء کی کمی نہیں تھی، جو مسلمانوں کی قیادت کر سکیں۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں نے ان میں سے کسی کو بھی اپنی قیادت نہیں سونپی۔ اس کے برعکس انھوں نے ایسے شخص کا انتخاب کیا جو عصری تعلیم سے آراستہ اور جدید طرز حیات کا پیکر تھا۔ جس میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چل سکے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت پر نظر دوڑائیں تو کون سا ایسا مسلک یا فقہہ ہے، جس کے ماننے والے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل نہیں تھے۔ یہ سب قائد کے پہلو بہ پہلو ایک وسیع البنیاد جدید مسلم ریاست کی تشکیل پر متفق تھے، جس میں ہر مسلمان کو اپنی تفہیم دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی ہو۔ یہی قیادت کا کمال ہوتا ہے، جو اس نے ثابت کر دکھایا۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ قیام پاکستان کا دکھ ان تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ہوا تھا، جو مسلمانوں کی نمایندگی کی دعویدار تھیں اور آخری وقت تک قیام پاکستان کے خلاف رطب اللسان رہی تھیں انھوں نے قیام پاکستان کو روکنے کی خاطر کانگریس کے ساتھ گٹھ جوڑ بھی کیا تھا۔ لہٰذا ان  کے لیے اس صدمے کو برداشت کرنا مشکل تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جس طرح کانگریس کی ابتدائی قیادت نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا، اسی طرح ان حلقوں نے بھی پاکستان کے وجود کو خلوصِ دل سے قبول نہیں کر سکی۔ موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک و عقائد سے وابستہ وہ تمام کمیونٹیاں جنہوں نے تقسیمِ ہند سے قبل دامے، درمے اور سخنے آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا اور قائد اعظم کو اپنا رہبر تسلیم کیا تھا، وہ روز ِاول سے پاکستان کے وجود، اس کے آئین اور نظمِ حکمرانی پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اس میں بہتری کی خواہاں ہیں۔

اس کے برعکس وہ تمام عناصر جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، وہ کسی نہ کسی بہانہ پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی اپنی صفوں میں بھی ابہام پایا جاتا تھا۔ اس کی قیادت نئی ریاست کے قیام، اس کے آئینی ڈھانچے اور مستقبل کے انتظامی خاکے کے بارے میں واضح نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم کی آنکھ بند ہوتے ہی دستور ساز اسمبلی نے آئین سازی کے لیے تو پیش رفت نہیں کی، لیکن قرارداد مقاصد کو بالاتفاق منظور کر لیا۔ ساتھ ہی ریاستی منصوبہ سازوں نے مخصوص مفادات کی خاطر ان تمام طبقوں کو جو 13اگست1947ء تک قیامِ پاکستان کی مخالفت پر کمر بستہ تھے، یکایک پاکستان نوازی کا سرٹیفیکٹ جاری کر کے انھیں ریاستی امور میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ 1949ء میں قرارداد مقاصد کو دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے سے قبل ملتان جیل میں نظر بند ایک نیم مذہبی و سیاسی جماعت کے بانی سربراہ کی رائے اور منظوری کو ضروری سمجھا گیا اور ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو مسودہ دے کر ملتان بھیجا گیا۔ ان رہنماء نے حسب خواہش اس مسودے میں بعض ترامیم و اضافے کیے۔ یہی مسودہ بالآخر حتمی قرار پایا اور منظور کر لیا گیا۔

درج بالا رویوں اور بابائے قوم کی افکار سے انحراف کے نتیجے میں 23 برس کے اندر ملک دو لخت ہو گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے لیے اپنی سمت کا از سر نو تعین کرنے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔ کیونکہ جس نظریے کی بنیاد پر تقسیمِ ہند ہوئی تھی، وہ (بقول اندرا گاندھی) خلیج بنگال میں ڈوب چکا تھا۔ اس لیے اس خطے میں آباد قوموں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دے کر قومی ریاست قائم کرنے کی ضرورت پیدا ہو چکی تھی۔ قومی ریاست بننے کی راہ میں حائل قوتیں کمزور اور منتشر تھیں۔ تاریخ نے  ذوالفقار علی بھٹو کو یہ نادر موقع دیا تھا کہ وہ ملک کو فکری ابہام کی دلدل سے نکال کر واضح سمت دے سکیں، جس میں وہ گزشتہ23 برسوں سے پھنسا ہوا تھا۔ مگر  ان  سے تین ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، جن کی وجہ سے پاکستان کے ایک حقیقی وفاقی جمہوریہ بننے کا اہم ترین لمحہ ضایع ہو گیا اور پاکستان ایک بار پھر ان قوتوں کے لیے تر نوالہ بن گیا، جن کے غلط رویوں اور فیصلوں کے نتیجے میں دو لخت ہوا تھا اور آج پھر انتشار کا شکار ہے۔

اول، آئین کی تشکیل کے بعد اس میں بلا کسی جواز دوسری ترمیم کی گئی، جس نے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور آئین کے جمہوری تشخص کے بارے میں بعض سنگین سوالات پیدا کر دیے۔ دوئم، بھٹو  کو  عبدالولی خان، دوسری طرف میر غوث بخش بزنجو  اور تیسری طرف سندھ کے عظیم رہنماء سائیں جی ایم سید اپنی حمایت کی یقین دہانی کرا رہے تھے، مگر بھٹو  نے اپنے فطری اتحادیوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر تکیہ کر کے اپنے اور ملک کے حق میں اچھا نہیں کیا۔ حالانکہ جی ایم سید  نے بھٹو کو باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالے کے چند روز کے اندر ہی خط تحریر کیا۔ جس کے متن کا لُبِ لباب یہ تھا کہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں اور خامیوں کو بھلاتے ہوئے ہم ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں، اگر آپ اس ملک میں قانون کی عملداری قائم کر سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو آئین کے دائرے میں لاتے ہوئے حقیقی معنی میں وفاقی جمہوری نظام قائم کر سکیں اور باقی ماندہ اقوام کے لیے ایک نیا عمرانی معاہدہ تیار کر سکیں۔ مگر بھٹو  تاریخ کے عطا کردہ اس اہم لمحے سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور انھوں نے اس خط کا جواب دینے کے بجائے سائیں مرحوم کو جیل میں ڈال دیا۔

اسی طرح میر غوث بخش بزنجو نے بلوچستان کے منتخب اراکین کو اس شرط پر آئین سازی کے عمل میں شریک کیا تھا کہ اس کے نفاذ کے بعد فروری 1948ء میں بلوچ عمائدین کے ساتھ قائد اعظم نے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس پر عمل ہو سکے گا۔ مگر آئین کے نفاذ کے فوراً بعد بلوچستان حکومت تحلیل کر کے اس صوبے پر فوج کشی کر دی گئی۔ کچھ عرصہ بعد حیات محمد خان شیرپائو پر پشاور یونیورسٹی میں ہونے والے حملے کو بنیاد بنا کر NAP پر پابندی عائد کر دی گئی۔ سوئم، 1976ء میں جنرل دائود نے اپنے کزن ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کیا، تو بھٹو  نے افغان بنیاد پرست رہنمائوں کی اسلام آباد میں نہ صرف مہمان نوازی کی، بلکہ انھیں دائود حکومت کے خلاف شورش میں ہر قسم کی معاونت کا یقین بھی دلایا۔ انھوں نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ ان کے اقدامات کے پاکستان پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو آگ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف بھڑکتی ہے،  اس کی لپٹیں اس بے معنی سی لکیر تو کیا دریائے اٹک کو عبور کر کے پنجاب اور سندھ کے میدانوں تک پہنچتی ہیں۔

آج  وہی کچھ ہو رہا ہے، جس کے بارے میں خان عبدالولی خان  نے 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے خدشات کا اظہار کر دیا تھا۔ مگر آج پھر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ انھی قوتوں کے آگے سرنگوں ہے، جن کا ووٹ بینک کبھی5 فیصد سے زیادہ نہیں رہا۔ جنہوں نے محمد علی جناح کو کبھی قائد اعظم تسلیم نہیں کیا۔ اس لیے اس ملک کی بقاء صرف جناح کے فکر و فلسفہ ہی میں مضمر ہے۔ اب یہ میاں نواز شریف سمیت پوری قومی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ جناح کی باقیات بن کر اس ملک کو آگے لے جانے کے پروگرام پر عمل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔