کشمیر…دنیا کا حسین ترین جیل خانہ…

غزالہ عزیز  اتوار 9 فروری 2014

اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے قرارداد کو منظور ہوئے سات عشرے گزر گئے۔ 5 فروری 1949 میں اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کی قرارداد منظور کی تھی۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے لیے دی گئی اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ’’حالات معمول پر آنے کے بعد اہل کشمیر بین الاقوامی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔‘‘

پنڈت نہرو نے وزیراعظم پاکستان کے نام ایک تار میں لکھا کہ ’’ہمارا وعدہ ہے کہ امن وامان قائم ہوتے ہی ہم اپنی فوجوں کو واپس بلالیں گے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام کی مرضی پر چھوڑدیں گے۔ ہمارا وعدہ صرف آپ کے ہی نہیں بلکہ ریاست کے عوام اور پوری دنیا کے سامنے ہے۔‘‘

پھر سات عشرے گزرگئے نہ حالات معمول پر آئے اور نہ وعدہ پورا کیا گیا۔ بالآخر کشمیریوں نے غلامی کا جوا اتارنے کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ چن لیا۔اگرچہ کشمیریوں کو صوفی منش سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔ وادی کے لوگ کبھی کسی حکمران کی فوج میں بھرتی ہونا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ انھوں نے کسی جنگ میں کرایے کا سپاہی بننا قبول کیا کہا جاتا تھا کہ کشمیری لباس خود فوری حرکت کے لیے مناسب نہیں، لمبا چوغہ جسے پھیرن کہتے ہیں پھر جب ہاتھوں میں دہکتی انگیٹھی ’’کانگڑی‘‘ بھی ہو تو اور مشکل۔۔۔۔لیکن کشمیریوں کو سہل پسند اور غیر عسکری مزاج کا سمجھنا ایک بھول تھی۔ وقت آنے پر یہی ’’پھیرن‘‘ ان کے لیے زرہ بن گیا جس کے اندر وہ اپنے ہتھیار چھپاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے اور وہی ’’کانگڑی‘‘ انگاروں سمیت ایک ہتھیار تھی جس کو خواتین بھی موقعے پر استعمال کرنا خوب جانتی تھیں۔

کشمیر میں اٹھنے والی یہ مزاحمتی تحریک کلی طور پر اندرونی تھی۔ کشمیری مجاہدین کو عوام میں جس طرح مقبولیت اور تعاون ملا خود ان کے لیے یہ حیرت کی بات تھی۔ پھر کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیری نوجوانوں نے بہادری کی ایک داستان رقم کی۔ ہر مشکل اور سختی کا مقابلہ کیا۔ پچھلے پچیس سال میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری یا تو گرفتار ہوئے یا قتل کردیے گئے۔ بے شمار لاپتہ ہیں۔ جن کی بیویاں ’’بیوگی‘‘ کی زندگی گزار رہی ہیں۔

جیلوں میں قید بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو عمر قید میں پندرہ پندرہ اور بیس بیس سال قید کاٹ چکے ہیں اب انھیں عدالتی کرتا دھرتا یہ بتا رہے ہیں کہ عمر قید کا مطلب تادم مرگ جیل میں رہنا ہے۔

آزادی کی اس تحریک کو صحیح سمت دینے کی منصوبہ بندی خام تھی۔ اگرچہ روس کے بکھرنے کے بعد وسط ایشیا کی ریاستوں کی آزادی اور یورپ میں دیوار برلن ٹوٹنے کے واقعات کشمیریوں کو یقین اور اعتماد دلا رہے تھے کہ یقینا کنٹرول لائن جو کشمیریوں کو تقسیم کرتی ہے اسی طرح ٹوٹ جائے گی اور کشمیر آزاد ہوجائے گا۔ لیکن نائن الیون کے واقعات کو بنیاد بناکر امریکا نے اقوام متحدہ میں 189 رکن ممالک کی حمایت سے مشترکہ قرارداد منظور کی جس میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مرتکب افراد اور گروپوں کی مدد اور جائے پناہ فراہم کرنے والوں کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا۔  2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت دنیا کو باور کروا رہا تھا کہ کشمیر میں مسلح جدوجہد درحقیقت عالمی دہشت گردی کا ہی ایک حصہ ہے ہمارے  صدر پرویز مشرف عالمی دباؤ برداشت نہ کرپائے اور کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔ یوں کشمیر میں عسکری تحریک کے لیے الٹی گنتی شروع ہوگئی۔

بھارت نے کشمیر کی تحریک کو اس شدت سے کچلا کہ قصبہ قصبہ شہداء کے قبرستان آباد ہوگئے۔ ناڑا اور پوٹا جیسے ظالمانہ اور بے رحمانہ قوانین نافذ کیے۔ یورپی یونین کے نمایندوں کے وفد نے کشمیر کو ’’دنیاکی خوبصورت ترین جیل‘‘ قرار دیا۔ جہاں فوج اور پولیس فورس کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔

بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے رہنماؤں کو دو خانوں میں بانٹا جاتا ہے ایک بھارت کے حامی اور دوسرے بھارت کے مخالف۔۔۔۔محبوبہ مفتی کا شمار بھارت کے حامی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔۔۔۔لہٰذا ان کی کہی گئی بات کی اہمیت کچھ اور طرح کی ہوتی ہے حال ہی میں وہ بھارتی حکومت کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’اگر بھارت نے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہ کیا تو ایک دن بھارت کا بھی وہی حال ہوسکتا ہے جو امریکا کا ویت نام میں ہوا۔‘‘

کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یٰسین ملک کہتے ہیں کہ ’’جس بھارتی سوسائٹی کے کہنے پر انھوں نے بندوق ہاتھ سے رکھی تھی وہ دراصل حکومت ہندوستان کے لیے آگ بجھانے والا عملہ تھا۔ آج وہ کہاں ہے؟ اور کیا آج کشمیر میں ہونے والے مظالم میں اس سوسائٹی کا خصوصی مفاد ہے۔‘‘

کشمیر کے تیور بدل رہے ہیں اکتوبر 2013 میں ایک طویل عرصے بعد کشمیری مجاہدین نے ایک زبردست کارروائی کی جس میں ایک کرنل سمیت بارہ فوجی ہلاک ہوئے کچھ لوگوں نے اتنی بڑی عسکری کارروائی پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا کشمیری حریت پسند اب بھی ایسی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجاہدین پچھلے سالوں میں بھی ایسی کارروائی کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ البتہ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ پاک بھارت کے درمیان  امن کی کوششوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟ دو طرفہ تجارت کا فروغ اہم سہی لیکن سب سے اہم خطے کی آزادی ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی دفاعی اور اسٹرٹیجک پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔