یورپ میں اسلام کا خوف

عابد محمود عزام  اتوار 9 فروری 2014

اب یہ بات تو عیاں ہوگئی ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی بہت سے متعصب اہل مغرب کو خوفزدہ کیے ہوئے ہے، حالانکہ انھیں امن و آشتی کے مذہب اسلام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ برطانوی سیاسی جماعت یوکے انڈیپنڈنٹ پارٹی کے رہنما گیرارڈ بیٹن نے اس خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’برطانیہ میں مقیم مسلمان قرآن مجید کے بعض حصوں سے اظہار لاتعلقی کریں۔ مسلمانوں کو جہاد سے متعلقہ قرآنی حصوں سے اپنے آپ کو الگ کرنا ہو گا اور یہ کہنا چاہیے کہ یہ ناقابل عمل، غلط اور غیر اسلامی ہے۔‘‘ گیرارڈ بیٹن کے مطابق ’’مغربی ممالک نے مسلمانوں کو اپنے ہاں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس اجازت کے نتیجے میں پورے مغرب کی سرزمین پر مساجد پھیل گئی ہیں۔‘‘ یہی سیاستدان 2006 میں قرآن مجید کے بعض حصوں پر پابندی اور 2010 میںمساجد کی تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب مسلمان یورپ، برطانیہ وغیرہ میں اجنبی تھے۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کے لیے دروازے ضرورکھولے، مگر ان کے دل نہیں کھلے تھے،لیکن آج اسلام امریکا و برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑے جوش وخروش سے پھیل رہا ہے، اسلامی لٹریچر تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔ ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ہوئے۔ برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے لوگ اسلام جیسے امن پسند مذہب کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ انگلینڈ میں تقریباً ساڑھے 7 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں چار ملین سے زاید مسلمان موجود ہیں، ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمان موجود ہیں، جن میں سے اکثر پاکستان، بھارت، بنگلا دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔

یورپ میں اچھی خاصی تعداد ان نو مسلموں کی بھی ہے،  جو مسلمان تو ہوچکے ہیں، مگر انگریزی رسم و رواج کی وجہ سے انھوں نے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے، کیونکہ انگریزی سماج آج بھی اسلام قبول کرنے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ گیرارڈ بیٹن جیسے لوگوں کی سرپرستی میں میڈیا بلاوجہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈاکرتا نہیں تھکتا۔مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کا تعصب برتا جاتا ہے، لیکن ان تمام سختیوں اور پروپیگنڈے کے باوجود اسلام یورپ میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی اور اسلام کی مقبولیت سے امریکا و برطانیہ سمیت پورا یورپ خاصا پریشان دکھائی دیتا ہے،  اسی لیے آئے دن گیرارڈ بیٹن اور ٹیری جونز جیسے متعصب لوگ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوفزدہ ہوکر اسلام کی توہین پر اتر آتے ہیں۔ کبھی نعوذ باللہ دنیا کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کو آگ لگاکر اپنے بغض کا اظہار کیا جاتا ہے اور کبھی قرآن مجید کے بعض حصوں سے لاتعلقی کے اظہار کا کہا جاتا ہے۔کبھی خانہ کعبہ و مدینہ منورہ پر حملے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اورکبھی مساجد کے مینار گرانے، مساجد کو مسمارکرنے اور مساجدکی تعمیر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب پر پابندی لگاکر مسلمانوں کو ستایا جاتا ہے۔

مغربی ممالک میں مسلم برادری کے خلاف حملوں کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اسی نفرت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ چند ماہ قبل برطانیہ میں ٹیل ماما نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 18 ماہ کے دوران اقلیتی مسلمانوں کے خلاف مجموعی طور پر 12 سو سے زاید حملے کیے گئے اور حملوں کا یہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ میں ایک مسلمان عورت نے  ٹیل ماما ادارے کو بتایا کہ مجھ پر کئی مرتبہ حملہ کیا گیا، مجھ پر تھوکا گیا، مجھے مارا پیٹا گیا، حتی کہ جب میں حاملہ تھی، مجھے میرے بیٹے اور میرے خاوند کے سامنے روندھا تک گیا۔ یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق سے تعلق رکھنے والی کاٹیا اینڈروسز کے بقول ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ اور فرانس مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا مرکز ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کو دیکھتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی نو مسلم خواہر نسبتی اور ممتاز صحافی بوتھ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ برطانوی مسلمانوں کی تعداد میں اضافے سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، انھیں چاہیے کہ مسلمانوں سے خوش رہیں۔ اگر مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے تو یہ ملک کے لیے اچھی بات ہے، مسلمان پرامن لوگ ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ اسلام امن و آشتی اور انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے، اسی عالمگیر سچائی کی جانچ پڑتال کے بعد یورپ میں  اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لینے والوں کی اکثریت مشہور و معروف اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یورپ میں گزشتہ سال اسلام کے دائرے میں داخل ہونے والے صرف چند معروف نام ذکرکیے جاتے ہیں۔ عرب ٹیلنٹ ایوارڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی امریکی پاپ گلوکارہ 23سالہ جنیفر گراوٹ، بین الااقوامی شہرت رکھنے والے فلپائن کے شہرہ آفاق گلوکار فریڈی ایگوئلر، جرمنی کی طرف سے تھائی لینڈ میں بطور سفیر کام کرنے والی یاسمین، فرانس کی معروف گلوکارہ میلنئی جارجیا دیس المعروف دیام، فتنہ فلم کے پروڈیوسر ارنائوڈفانڈورن، ان سب کے مطابق اسلام کے مکمل مطالعہ کے بعد ہم نے اسلام قبول کیا۔ ان کے علاوہ بے شمار ایسے نام بھی ہیں جو منظرعام پر نہ آسکے۔ باکسر محمدعلی، ایوان ریڈلی مریم، محمد یوسف مبلغ یورپ، سمیرا نامی معروف عیسائی رہنما، ماہر تعلیم پروفیسرکارل مارکس، ڈاکٹر ولیمز، برطانوی ماڈل کارلے واٹس  اور معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن کے ایک بھائی اور بہن سمیت سیکڑوں ایسے معروف افراد تھے جنہوں نے  مختلف ادوار میں اسلام کی ابدی صداقت اور حقانیت کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ معروف پاپ سنگر مائیکل جیکسن اور شہزادی ڈیانا کے بارے میں بھی ان کے نہایت قریبی حلقوں کی طرف سے بار ہا کہا جاتا رہا ہے کہ وہ بھی مسلمان ہوگئے تھے۔

ان بڑی بڑی سمجھدار شخصیات سمیت مسلمان ہونے والوں کے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد مسٹر گیرارڈ بیٹن کے اسلام کے معاملے میں بغض و عناد سے کام لینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر انھیں زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا یا پھر یورپ میں اسلام قبول کرنے والے افغانستان و عراق سمیت اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے گیرارڈ بیٹن کے ہم مذہبوں کی طرح یورپ میں خون کی ہولی کھیلتے تو شاید اس بغض کی کوئی وجہ تراشی جاسکتی تھی، لیکن جب ایسا کچھ بھی نہیں تو گیرارڈ بیٹن کواسلام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ یورپ کے نو مسلموں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو کونسی چیز اسلام کی طرف کھینچ لاتی ہے تو جواباً کہتے ہیں کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے،اس سے ہمیں روحانی سکون ملتا ہے۔ جب یورپ کے لوگ خود امن و سکون کی زندگی قبول کررہے ہیں توگیرارڈ بیٹن ان کی زندگی کا سکون کیوں چھیننا چاہتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔