نفسیات

راؤ سیف الزماں  جمعـء 10 دسمبر 2021

انسان قدرت کی مخلوقات میں عجیب ترین مخلوق ہے ، جس کی ایک بڑی وجہ اس کی نفسیات اور اس سے جڑی عجیب و غریب حکایتیں، شکایتیں، روایتیں، وضاحتیں اور بہت کچھ جاننے سمجھنے کے لائق ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کبھی پیاس ہے کبھی دریا۔ وہ کبھی کیا ہے اورکبھی کیا ہے؟ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ سائنس بھی انسانی نفسیات پر خاطر خواہ ترقی ، ( ریسرچ ) نہیں کر پائی کیونکہ یہ ہر آن بدلتی ہے۔ انسان اپنی زندگی کے دو محکم کنارے رکھتا ہے ،خیر اور شر ۔ اور وہ ان دونوں کناروں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ رات نے واضح کیا دن کیا ہے، سچ نے جھوٹ کو اور بلندی نے پستی کو زمین نے آسمان کو۔ انسانی وجود میں خیر اور شر ودیعت کردہ ہیں۔

اس مرحلے پرکچھ احباب مسئلہ تقدیر و تدبیرکا بیان کرتے ہیں جو عرصہ دراز سے بحث طلب ہے لیکن میں اس موضوع سے بچتے بچاتے ہوئے انسانی نفسیات پر کچھ دلائل دینا چاہتا ہوں اگرچہ صاحب علم نہیں اور گفتگو کے احاطے پر گرفت بھی نہیں ، لیکن جس قدر ذہن نارسا نے رہنمائی کی تو بس اتنا سمجھ سکا کہ فطرت ایک ایسا قید خانہ ہے جس کی چار دیواری کو توڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

کیونکہ یہ عمارت قدرت کی تعمیرکردہ ہے اور فطرت ہی نفس کو خلق کرتی ہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فطرت میں مماثلت توکسی حد تک ممکن ہے لیکن سرا سر ایک جیسی ہو یہ ممکن نہیں میری نظر میں وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جن کی نفسیات میں توازن موجود ہو یعنی حسد ، رشک ، محبت ، نفرت ، عداوت ، دوستی اور ایسے ہی جذبات توازن رکھتے ہوں ، لیکن ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انسان اس میں کچھ کمی بیشی پر اختیار رکھتے ہیں؟ تو جواب کی تلاش میں ہمیں کچھ سفر درکار ہوگا جو کسی ملک سے ملک کا نہیں بلکہ اپنی ہی ذات میں چند یا سب سیڑھیاں اترنی ہونگی۔ خود کو ابتدا سے دہرانا ہوگا مثلا یاد داشت محفوظ ہونے سے لے کر موجودہ دور تک یہ جائزہ لینا ہوگا کہ بچپن سے ہمارا مزاج کیا رہا؟ آتشی، آبی، بادی، یا خاکی۔ ہماری طبیعت میں غصہ تھا یا نرمی، رحم تھا یا بے رحمی، لالچ تھا یا بے غرضی، محبت تھی یا نفرت؟ کیا ہم طنزیہ مزاج رکھتے تھے یا تعریف سے کام لینے والے۔

جب یہ جائزہ لے لیں تو بہت کچھ ہم پر اپنا آپ واضح ہوجائے گا۔ اگر خصوصیت متوازن ملیں تو بہت خوب اور چیزیں بے ترتیب ہوں تو انھیں ترتیب وار کرنا کیونکر اور کیسے ممکن ہو؟ میرے مشاہدے کے مطابق جملہ خوبیوں، خامیوں میں کچھ عادات کو بدلنا تو ممکن نہ ہوگا لیکن کچھ میں تبدیلی پر ہم اختیار رکھتے ہیں یا قدرت نے ہمیں یہ محدود سا اختیار عطا کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہماری طبیعت میں عجلت پسندی ہے تو اسے آہستہ روی پر کھنچ تان کے لایا جاسکتا ہے۔

اگر ہمارا ذہن منفیت پر مائل رہتا ہے تو ہم کچھ مثبت کرنے کی بھی کوشش کرکے دیکھیں۔ شاید نفس اس پر بھی مطمئن ہوجائے اگرچہ یہ آسان نہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے وہ بہت کچھ کرسکتا ہے اور بہت کچھ نہیں۔ لیکن نہیں پر ہم بات ہی نہیں کر رہے بلکہ ایسی نفسیات ہمارا موضوع ہے جو متنوع مزاج ہے ، توازن کھو چکی ہے۔ اسے کیسے حدود میں لایا جائے کیسے زندگی کو آسان سے آسان تر بنایا جائے۔

میں ایک زمانے میں رئیس امروہی کی تحریروں کا بڑا معتقد رہا ہوں بلاشبہ نفسیات پر ان کی تحقیق انسانوں کے لیے بہت کار آمد رہی ہے ، لیکن مسئلہ پھر وہی درپیش ہے کہ ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے جو مختلف ہوتی ہے میرا خیال ہے کہ اگر مشترکہ انسانی صفات پر بات کی جائے تو کچھ نہ کچھ طے کرنا ممکن ہو سکتا ہے اور نفسیات میں لگیں ان گرہوں کو کھولا جاسکتا ہے جو فطرت سے تضاد رکھتی ہیں یہاں پر ہم فرض کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح کی صفات زندگی میں tools کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ ٹولز خوبیوں اور خامیوں پر منحصر ہیں تو ہم دو طرح کی فہرست مرتب کریں 1 خوبیوں کی 2 خامیوں کی اور جائزہ لیں کہ تعداد میں کونسی زیادہ ہیں؟

اگر خوبیاں زیادہ ہیں تو ان ٹولز سے خامیوں کو repair کریں اور اگر خامیاں زیادہ ہیں تب بھی کم تعداد والی خوبیوں سے ہی ان کی مرمت کی جائے۔ جس میں پہلی صورتحال کے برعکس وقت زیادہ لگے گا لیکن آخر کار خامیاں گھٹنے لگیں گی اور ہم کسی شتر بے مہار نفس کی حالت کو بہتر کرسکتے ہیں۔ اس میں ایک پہلو اور ایک زاویے کا اضافہ اور بھی ممکن ہے جو دیکھا جائے تو کافی جاندار بھی ہے کہ خود کائنات کی بھی ایک نفسیات ہے، چیزوں کی باقاعدہ ترتیب ہے ذرا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو عقدہ کشائی ممکن ہے۔ کائنات جس انداز میں اپنی تعمیر و ترقی کرتی ہے یا تنزلی کو مرحلہ وار درست کرتی ہے اسی انداز کو اپنا لیا جائے۔

مثال کے طور جب زمین پر کہیں زلزلہ آتا ہے تو وہاں زمین پھٹ جاتی ہے درخت اکھڑ جاتے ہیں ایک تباہی کا سماں ہوتا ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ زمیں کا درجہ حرارت بدلتا ہے بارشیں ہوتی ہیں درخت اور پودے پھر سے نمو پانے لگتے ہیں اور قارئین کرام یہیں سے یہ حل سامنے آتا ہے کہ ہم انسان بھی اپنی تعمیر خود کر سکتے ہیں یا کرنی چاہیے اور اس مرحلے پر کسی کی مدد ہمیں نت نئے مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔ کیونکہ آپ کو کیا معلوم کہ جس سے آپ مدد کے طالب ہیں وہ خود بھی شکستہ ہو؟

کائنات اور اس میں آباد مخلوقات کے مطالعے سے یہ حقیقت ہم پر واضح ہوتی ہے کہ صرف انسان نہیں ہر شے کی فطرت ہے لیکن ہر شے کی نفسیات نہیں ہوتی صرف جاندار مخلوق کی ہوتی ہے جن میں جانور، درخت چرند پرند، پھول پودے اپنی اپنی نفسیات تو رکھتے ہیں لیکن ان کی نفسیات شعورکی ایک محدود سی حد پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد وہ نہ سوچ سکتے ہیں وہ اپنے یا کسی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں سوائے حضرت انسان کے جو ایک ترقی یافتہ شعور کے ساتھ خلق کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر فرد اپنی ایک پیچیدہ نفسیات رکھتا ہے اور اسی کا اسیر رہتا ہے تمام عمر۔

دراصل اپنی تعمیر کوئی آسان ہدف نہیں کیونکہ اس کے پہلے مرحلے پر تنقید اور خود احتسابی کے ایک دشوار گزار عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور اکثر لوگ اپنی نفسیات کے مطالعے سے ہی ناواقف ہوتے ہیں وہ اپنی ذات پر گفتگو کو ذاتی حملہ تصور کرتے ہیں ۔لیکن میری رائے میں یہ اشد ضروری ہے کہ ہم انسانی اور ذاتی نفسیات کو موضوع بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔