ہائر ایجوکیشن کمیشن جامعات: ایک اچھا فیصلہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 10 دسمبر 2021
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن جامعات کے اساتذہ کی ترقیوں سے متعلق ایک پالیسی مرتب دے کر اس سے متعلق مسودے کو تمام سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کو اس پر اپنی رائے دینے کے لیے بھیجا ہے، یہ ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔

اس پالیسی کے مطابق سرکاری یونیورسٹیوں میں بی پی ایس پر اساتذہ کی ترقیوں کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پالیسی تیارکی ہے۔ پالیسی مسودہ کے مطابق یونیورسٹیوں کے اساتذہ اپنی پروموشن کے لیے از خود درخواست دینے کے مجاز ہوں گے جب کہ پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے پر لیکچررز کو ایڈہاک پر تعینات کرنے کے بجائے انھیں فوری طور پر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی ملے گی۔

مجوزہ پالیسی کے تحت ایم فل ڈگری کے ساتھ چار سالہ تدریسی تجربہ کے حامل اساتذہ اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے اہل ہوں گے۔ اساتذہ کی اگلے گریڈ میں پروموشن کے لیے ٹیچنگ ، ریسرچ ، سروس ریکارڈ اور اسٹوڈنٹس فیڈ بیک کی بنیاد پرکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر پروموشن کے لیے تدریسی سروس کی مدت چھ برس مقرر ہوگی ، پروفیسر کے لیے دس سالہ پوسٹ پی ایچ ڈی تجربہ یا پندرہ سالہ تدریسی تجربے کی شرط لگانے کی تجویز ہے۔ پروفیسر کے عہدے پر ترقی کے لیے دس تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت کی شرط ہوگی۔

چار سال تک ایسوسی ایٹ پروفیسر رہنے والے اساتذہ فل پروفیسر کے عہدے کے لیے اہل ہوں گے اور چار سال تک اسسٹنٹ پروفیسر رہنے والے اساتذہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے اہل ہوں گے۔

یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی درخواست پر پروموشن کے لیے اسکروٹنی کمیٹیاں تشکیل ہوں گی۔ اسکروٹنی کمیٹی میں متعلقہ فیکلٹی کا ڈین، چیئر پرسن، دو ماہرین مضمون اور رجسٹرار ممبر ہوں گے۔ اساتذہ کی پروموشن کا پراسس سال میں دو مرتبہ منعقد کیا جائے گا۔

لیکچرار کے عہدے پر تقرری کے بعد اگلے گریڈز میں ترقیوں کے لیے یونیورسٹیز آسامیاں مختص کرنے کی پابند ہوں گی۔ ایچ ای سی نے پروموشن کی نئی پالیسی کا مسودہ وائس چانسلرز کو ارسال کر دیا ہے۔ پالیسی کا مجوزہ مسودہ وائس چانسلرز کی رائے شامل کرنے کے بعد یونیورسٹیوں کی سینڈیکیٹ سے منظور کرایا جائے گا۔

راقم کے خیال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کے اساتذہ کے لیے ایک اہم ترین قدم اٹھایا ہے کیونکہ اساتذہ کی ترقیوں سے متعلق آج تک تجربے اور سینیارٹی کو نظر انداز کیا جاتا رہا جب کہ پورے ملک میں غیر تدریسی ملازمین کو خواہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے سے تعلق رکھتے ہوں تجربے اور سینیارٹی کی بنیاد پر ترقیاں دینے کے مواقعے موجود ہیں لیکن جامعات کے اساتذہ کی ترقی کے راستے اس ضمن میں قطعی بند ہیں۔

فرض کریں ایک استاد بطور لیکچر بھرتی ہوتا ہے تو تجربے اور سینیارٹی کی بنیادی پر ساری زندگی اس کی ترقی نہیں ہوگی، ترقی کے لیے اسے انتظار کرنا پڑے گا کہ کب اس کی جامعہ اخبار میں اشتہار دیتی ہے، جب اشتہار شایع ہوگا تو پھر وہ اگلے عہدے کے لیے اشتہار کے جواب میں اپنی درخواست جمع کرا سکتا ہے مگر درخواست دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کو اگلے عہدے میں ترقی دیدی جائے گی بلکہ وہ ایک نئے امیدوار کے طور پر اس عہدے کے لیے انٹرویو کے (سلیکشن) بورڈ کا سامنا کرے گا اور اس عہدے کے لیے وہ تمام امید وار بھی ہونگے جنھوں نے بیرون، شہر، صوبے یا ملک سے تعلیم اور تجربہ کا وسیع تجربہ حاصل کر رکھا ہوگا اور جن میں کچھ بڑی بڑی سفارشیں بھی رکھتے ہوں گے۔

اب فرض کریں متعلقہ شعبے میں اس عہدے کی صرف دو آسامیاں ہیں اور انٹرویو دینے والے چالیس سے پچاس کے قریب ہیں تو ایسے میں اس شعبے میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے لیکچر کے لیے منتخب ہونے کے کیا مواقع ہونگے؟ خصوصاً اگر اس کے صدر شعبہ کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہوں۔

بات صرف ترقیوں تک محدود نہیں ہے ، ایک سرکاری جامعہ کے شعبہ اور کلیہ کے سربراہ کو گاڑی اور ڈرائیور کی سہولت تک میسر نہیں ہوتی جب کہ دیگر سرکاری محکموں کے گریڈ سترہ ، اٹھارہ اور انیس کے افسران کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہوتی ہیں اس کا ایک بیس گریڈ کا استاد تصور تک نہیں کر سکتا۔ جو استاد قوم کو اپنے پائوں پرکھڑا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے اس کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ہمارے ایک دوست جو جامعہ کراچی میں گریڈ انیس میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، گزشتہ کئی دنوں سے بڑے مصروف اور فکر مند دکھائی دے رہے تھے ،جب ہم نے ان سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ وہ ایک تین کمروں کا فلیٹ خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک بینک سے اور کچھ دوستوں سے قرضہ لینے کی بھاگ دوڑ کر ہے ہیں کہ کسی طرح کرائے کے مکان سے نجات مل جائے کیونکہ مہنگائی دن بہ دن بڑھتے جا رہی ہے اور مکانوں کے کرائے بھی بڑھتے جا رہے ہیں ، آگے چل کر ریٹائرمنٹ کا وقت بھی قریب تر آرہا ہے، اس لیے کو شش ہے کہ سر چھپانے کا کوئی آسرا ہوجائے۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا بطور سرکاری ملازم آپ کو کوئی پلاٹ وغیرہ نہیں ملا؟ کہنے لگے کہ مختلف خبریں سننے میں تو آتی رہتی ہیں مگر فی الحال دور تک کوئی پلاٹ نظر نہیں آتا۔

کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جو طبقہ اس ملک کی تعمیر و ترقی اور قوم کو پڑھا لکھا کر ملکی فوج تیار کر رہا ہے اس طبقہ کو مکان تو دور کی بات ، نہ پلاٹ میسر ہیں نہ ہی ترقی کے مواقعے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں پلاٹوں کی کس طرح بندر باٹ ہوتی ہے۔

بہرکیف راقم کے خیال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا حالیہ اقدام بہت ہی شاندار ہے، اس ضمن میں بحثیت کالم نگار ایک تجویز ہائر ایجوکیشن کمیشن کی توجہ کے لیے یہاں پیش کی جارہی ہے تاکہ اس پرموشن پالیسی میں مزید بہتری آسکے اور اساتذہ کے مسائل کم ہو سکیں۔ تجویز یہ ہے کہ جس طرح دیگر سرکاری ملازمین کو ’’ ٹائم پے اسکیل‘‘ کی بنیاد پر ہر پانچ سال بعد اگلے پے اسکیل میں ترقی دے دی جاتی ہے ویسے ہی جامعہ کے ہر استاد کو پانچ سال کی سروس مکمل ہونے پر فوراً اگلا پے اسکیل دے دیا جائے جب کہ پرموشن کے دیگر طریقے جو بھی طے ہوں وہ اپنی جگہ جاری رکھے جائیں۔ اس طرح کم از کم اگلے پے اسکیل حاصل ہونے سے اساتذہ کا مالی نقصان نہیں ہوگا اور اس میں شعبہ کے اندر آسامی ہونے، نہ ہونے یا کم تعداد میں ہونے کا مسئلہ بھی آڑے نہیں آئے گا نہ ہی کسی دوسرے سنیئر استاد کا حق مارا جائے گا۔

امید ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن راقم کی اس تجویز پر بھی غورکرکے اساتذہ کے لیے مزید آسانیاں فراہم کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔