مشینیں نہیں ضمیر زندہ کیجئے

محمد مشتاق ایم اے  اتوار 12 دسمبر 2021
الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کیسے دور ہوں گے؟ (فوٹو: فائل)

الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر تحفظات کیسے دور ہوں گے؟ (فوٹو: فائل)

سادہ سا سوال ہے جس معاشرے میں لوگوں کے ضمیر مردہ ہوجائیں کیا وہاں انسان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی مشینیں وہاں کے نظام کو درست سمت میں لانے اور چلانے کے قابل ہوسکتی ہیں؟ اس سادہ سے سوال کا جواب بھی اسی قدر سادہ ہے کہ ’’بالکل نہیں‘‘۔

ہمارے ملک میں ہر الیکشن کے فوری بعد ہارنے والوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات اور جیتنے والوں کی طرف سے عوام کے فیصلے کو بڑا سراہا جانا اب معمول کی بات بن چکی ہے اور اس سارے عمل کے دوران جب تک کچھ لوگ لڑائی جھگڑوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کردیں ہمیں سکون ہی نہیں ملتا۔ کیوں کہ ان بے وقوف ورکرز کی ’’شہادت‘‘ اس کی پارٹی ہمیشہ کےلیے کیش کراتی رہتی ہے اور اسے ان کی پارٹی کی طرف سے جمہوریت کےلیے بہت بڑی قربانی بنا کر پیش کیا جاتا رہتا ہے۔

اسی طرح یہاں ہر الیکشن کے بعد اس بات کا عزم کیا جاتا ہے کہ اگلے الیکشن کو نہایت شفاف بنایا جائے گا تاکہ کوئی اس کے خلاف انگلی نہ اٹھا سکے، لیکن حقیقت میں اگلے الیکشن میں ایک انگلی ہی کیا پورا کا پورا ہاتھ ہی اٹھا ہوتا ہے اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق ہر آنے والا الیکشن پچھلے الیکشن سے زیادہ متنازع بن کر سامنے آتا ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ ہر الیکشن میں تمام پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے پر یا پھر الیکشن کرانے والے عملے اور اداروں پر لگنے والے الزامات مختلف ہوتے ہیں۔

آج جب سال 2021 اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور سال 2022 جلوہ افروز ہونے والا ہے، اور اگلے الیکشن ایک خبر کے مطابق اکتوبر 2023 میں کرائے جانے کا پلان ہے، کے حوالے سے بلی تھیلے سے باہر آنا شروع ہوچکی ہے اور پارٹیوں نے اپنے اپنے عہدے داروں اور ورکروں کو اس حوالے سے عوامی رابطہ مہم تیز کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ پارٹی کے رہنما خود بھی کمر کس کر اس حوالے سے میدان میں اتر چکے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے حلقوں میں ہر شادی پر شرکت کرکے اپنا چہرہ مبارک دکھانا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور پھر کسی بھی فوتگی پر جنازے میں خود شرکت کی کوشش، ورنہ اپنے کسی نمائندے کے ذریعے اپنا افسوس وارثین تک حفاظت سے پہنچانا اب معمول کا کام بن چکا ہے۔ اس حوالے سے اگلا سال بہت گہماگہمی، جوڑ توڑ اور سیاسی ہوا کو دیکھ کر مخصوص لوگوں کی طرف سے پارٹیاں بدلنے کا سال بھی کہا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ الیکشن میں اٹھنے والے سوالات کے پیش نظر یہ عندیہ دیا تھا کہ اگلے الیکشن 2023 کو شفاف بنانے کےلیے انتظامات کیے جائیں گے تاکہ ہارنے والی پارٹی جیتنے والی پارٹی پر الزامات نہ لگا سکے۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نے ایک ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) متعارف کرا دی ہے اور مختلف فورم پر اس کا ڈیمو بھی دیا جاچکا ہے۔ لیکن ہم کیا کریں کہ اس سے پہلے کسی بات پر ہم متفق اور متحد ہوئے ہیں، جو اب ہوں گے۔

حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں اس مشین کو شفاف الیکشن کا واحد حل قرار دیا ہے جب کہ تمام مخالف پارٹیوں نے اس میں غلطی اور جانبداری کے امکانات کا ڈھیر لگادیا ہے۔ گویا ایک الیکٹرانک مشین نہ ہوئی عید کا چاند ہوگیا کہ کسی کو نظر آرہا ہے اور کسی کو نظر نہیں آرہا۔ کوئی عید منا رہا ہے اور کوئی عید منانے سے انکاری ہے۔ بہرحال حکومت نے اس حوالے سے تمام اعتراضات کو رد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر دیگر کئی بلوں کے علاوہ اس مشین کو الیکشن میں استعمال کرنے کا بل بھی پاس کروا لیا۔ حکومت نے ای وی ایم کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے جبکہ اپوزیشن نے ای وی ایم کو استعمال نہ کرنے کےلیے سر پر کفن باندھ لیے ہیں اور دونوں جان کی بازی لگانے سے گریز نہ کرنے کے دعوے پر قائم ہیں۔ اب دیکھیں عوام کو اس بار الیکشن میں کون سا نیا سرکس دیکھنے کو ملتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم اداروں کے بجائے اپنی پسندیدہ شخصیات کے سحر میں مبتلا ہیں اور ہماری آئیڈیل شخصیت جو کہہ دے ہم اس کو فالو کرتے ہیں، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی بات سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادارے مضبوط ہوں صرف اسی صورت میں ہم ان نمائندوں کے چنگل سے نکل سکیں گے اور ہمارے کام ایک طے کردہ سسٹم کے تحت ہونے کے امکانات پیدا ہوں گے، ورنہ ہم معمولی سے معمولی کام کےلیے ان کے محتاج رہیں گے۔ ہمارے خادم یہ ہیں لیکن ان کے پیچھے پریشان ہم ہوتے ہیں۔ جس پروٹوکول کے ہم حقدار ہیں وہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اتار کر ان کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں اور پھر آنے والے پانچ سال منہ آسمان کی طرف اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں نیک حکمران عطا فرما جو ہمارے مسائل حل کرے۔ جو لوگ ہم منتخب کرتے ہیں اور جن کو ہم سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں وہ اقتدار میں آتے ہی اپنے مسائل حل کرنے شروع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو پارسا، محب وطن جبکہ مخالفین کو غدار، چور، ڈاکو اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازنا شروع کردیتے ہیں۔

کسی بھی سمجھدار شخص کو الیکشن کے حوالے سے نئی ٹیکنالوجی کے استعمال پر کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے وہ ای وی ایم مشین ہو یا ایک کیلکولیٹر ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں شرط یہ ہے کو اس کو پروفیشنل طریقے سے ایمانداری کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ ہمارا ایک ہونا گویا ناممکن ہے۔ ہماری ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی نیتوں کو بھی جانتے ہیں، اس لیے اپوزیشن کو معلوم ہے کہ حکومت جتنی بھی اصلاحات کر رہی ہے اس کے پیچھے ان کی بری نیت کارفرما ہے اور یہ خفیہ طریقے سے ایسے انتظامات کر رہی ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال ان کے فائدے میں ہو۔ اسی طرح حکومت بھی اپوزیشن کی نیت بھانپ چکی ہے کہ چاہے بل گیٹس اور اس کی ٹیم بھی ای وی ایم مشین کو یہاں آکر شفاف قرار دے دے، تب بھی اپوزیشن یہ بات نہیں مانے گی۔

اب ہم آتے ہیں ای وی ایم مشین کی طرف، جس کا اگلے الیکشن میں استعمال حکومت یقینی بنانا چاہتی ہے۔ اس مشین کی تکنیکی صلاحیت، غیر جانبداری اور شفافیت کے بارے میں تو وہی ماہرین بتا سکتے ہیں جو اس فیلڈ سے متعلقہ ہیں۔ لیکن یہاں کچھ سوالات ضرور ذہنوں میں جنم لیتے ہیں۔

1) جیسا کہ ہم جانتے ہیں اگر اگلے الیکشن میں ای وی ایم استعمال ہوتی ہے تو یہ اس کا ہمارے ملک میں پہلا تجربہ ہوگا۔ اس لیے یہ سوچنا سمجھا ضروری ہے کہ کیا ملک کے پانچ سال میں ایک بار ہونے والے جنرل الیکشن کے ایک بہت بڑے نظام کو اس غیر یقینی تجربے کی بھینٹ چڑھانا دانشمندی ہوگی؟ اور کیا اس کا بہتر حل یہ نہیں کہ پہلے اس مشین کو محدود پیمانے پر استعمال کرکے ہر لحاظ سے اس کا رزلٹ چیک کرلیا جائے۔

2) ہم اگر دکان سے ایک بلب بھی لیتے ہیں تو چیک کرکے لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سے آٹھ لاکھ مشینوں کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک تو انہیں بنانے میں بھی کافی وقت درکار ہوگا اور پھر ان کو کسی جگہ محفوظ کرنا دوسرا مرحلہ ہوگا، پھر الیکشن کےلیے متعلقہ عملے کو ان کی تقسیم اور عین الیکشن کے دن ان تمام مشنیوں کے درست طریقے سے کام کرنے کی ضمانت دینا اتنا آسان کام نہیں ہوگا جتنا سمجھا جارہا ہے۔

3) ان تمام مشینوں نے صرف اسلام آباد کے پوش علاقوں میں استعمال نہیں ہونا بلکہ ملک کے دوردراز اور پس ماندہ علاقوں میں بھی استعمال ہونا ہوگا، جہاں بجلی کی آنکھ مچولی معمولی بات ہے اور جنریٹر وغیرہ کا بندوبست بھی خال خال ہی ممکن ہوگا۔ تو وہاں ایسی مشین کا استعمال فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوگا۔

4) ہمارے جیسے ملک میں جہاں الیکشن کے دوران ووٹ کے ڈبے تو کیا پورے کا پورا عملہ ہی غائب کرا دیا جاتا ہے وہاں اس چھوٹی سی مشین کی کیا حیثیت ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی رہے گی۔ آپ اندازہ لگا لیجئے کہ اگر کسی حلقے میں مشین غائب کرنے جیسا واقعہ ہوگیا تو کیا پورے کا پورا الیکشن ہی متنازع نہیں ہوجائے گا؟ یقیناً ہوگا کیوں کہ عمران خان خود بھی تو یہی کہتے ہیں ہمارا معاملہ صرف چار حلقوں سے شروع ہوا تھا۔

5) اس مشین کے اگلے الیکشن میں استعمال پر نہ صرف اپوزیشن کو اعتراضات ہیں بلکہ حکومت کی حلیف پارٹیاں بھی آن ریکارڈ اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناچکی ہیں۔ اگلے الیکشن میں ابھی وقت ہے، نہ جانے اس وقت موجودہ حکومت کی حلیف جماعتیں کس کشتی کی سوار ہوں گی لہٰذ ا کسی بھی غلطی، خرابی کی وجہ سے ان کی ہار کی صورت میں وہ تمام الیکشن کو متنازع بنانے میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیں گی۔

6) اس مشین کے استعمال سے ووٹ کی سیکریسی پر کافی سوالات اٹھائے جاچکے ہیں، لہٰذا اس کو نہ صرف چیک کیا جانا ضروری ہے بلکہ تمام جماعتوں کا اس حوالے سے اعتماد بہت اہم ہے۔ ورنہ ان سب کا یہ اعتراض بھی کافی ہلچل پیدا کرسکتا ہے۔

7) ایک ایسی مشین جس کی درستی اور غیر جانبداری پر نہ صرف حکومت مخالف جماعتیں متفق نہیں ہیں بلکہ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی اپنے تحفظات کا برملا کئی فورمز پر اظہار کرچکی ہیں، تو کیا ایسے میں محض ہٹ دھرمی کی بنا پر اس کا استعمال کرنا ضروری ہے یا ان سب جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر ان کو ایک ماہرانہ طریقے سے اس کی درستی، غیر جانبداری اور ضرورت پر قائل کرنا زیادہ بہتر ہے، تاکہ کل کوئی تنازع ہی کھڑا نہ ہو۔

8) اگر الیکٹرانک مشین سے ووٹنگ کا طریقہ کار اتنا شفاف، غیر جانبدار اور ضروری ہوتا تو کیا آج پوری دنیا میں یہی طریقہ کار نہ اپنا لیا گیا ہوتا؟ چلیے آپ غریب ممالک کو اس فہرست سے نکال دیجئے لیکن ایسے کئی ممالک، جو ان حوالوں سے ہم سے ہر لحاظ سے بہت بہتر ہیں کم از کم وہاں تو کوئی دوسرا طریقہ قابل عمل قرار نہ دیا جاتا۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی پیپر ووٹ کا سلسلہ کامیابی سے جاری و ساری ہے، لہٰذا کم از کم اس بات کو تو حرف آخر نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس مشین کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ممالک نے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام قائم کرکے پھر اس سے واپسی کی راہ لے لی۔

9) الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم گڈے گڑیا کا کھیل نہیں بلکہ اس میں ہمارے ملک کے بے پناہ وسائل جھونکے جائیں گے، جب کہ ہمارا ملک پہلے ہی قرضوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ ووٹنگ اسٹاف کی ٹریننگ ایک الگ سر درد ہوتا ہے اور پھر عملے کہ اکثریت ان مشینوں کے استعمال کی کوئی قابلیت نہیں رکھتی اور کئی ایک کی نااہلی الیکشن میں کچھ نئے گل کھلائے گی اور الزام الیکشن کمیشن اور اس وقت کی حکومت پر آئے گا۔ ابھی تک ہمارا عملہ پرانے طریقہ کار بھی مکمل نہی سمجھتا اور ان سے کئی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں تو یہ تو طریقہ کار ہی مختلف ہے۔

10) اگر اگلے الیکشن میں یہ مشین استعمال ہو ہی جاتی ہے اور خدانخواستہ اوپر بیان کردہ خدشات میں سے کچھ درست ثابت ہوجاتے ہیں تو اتنے وسائل کے استعمال کے بعد اگر بڑی جماعتیں بشمول ان کے حمایتی نتائج کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور پھر معاملات الیکشن ٹریبونلز اور پھر ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کی زنیت بنتے ہیں، احتجاج کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو ہم اُس وقت کہاں کھڑے ہوں گے؟

یہ سب کچھ عرض کرنے سے ہمارا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے خلاف ہیں، بلکہ ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ان تمام پہلوؤں پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اس میں ایک سنجیدہ تجویز یہ ہے کہ پہلے اس مشین کو تھوڑے کم لیول پر استعمال کرکے اس کی اہلیت کو چیک کیا جائے اور تمام جماعتوں کو اس کے بارے میں مکمل بریفنگ دی جائے۔ ان کے خدشات دور کرنے کےلیے ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ان کو بٹھا کر ان کی تسلی کرائی جائے تاکہ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے ابہام دور ہوجائیں۔

یہ بات بھی یاد رکھیے ملک میں اتحاد و یگانگت اور رواداری کی فضا قائم کرنا اور ملک میں ہونے والے انتخابات کے طریقہ کار پر سب جماعتوں کا متفق ہونا ملک میں انتخابات کرانے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اور ان سب چیزوں سے زیادہ ضروری اپنے مردہ ضمیروں کو زندہ کرنا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر کوئی مشین، کوئی طریقہ کار، کوئی الیکشن کمیشن اور کوئی سپریم کورٹ ہر لحاظ سے مکمل اور درست انتخابات کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کیوں کہ کوئی مشین کسی کو ووٹ خریدنے اور بیچنے سے نہیں روک سکتی۔ کوئی مشین وقت کی ہوا دیکھ کر کسی کو جماعت بدلنے سے نہیں روک سکتی۔ کوئی مشین الیکشن کے بعد جیتنے والے نمائندوں کو اپنے ووٹرز کا حال پوچھنے اور ان کے مسائل حل کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ کوئی مشین کسی جماعت یا رہنما کو اپوزیشن یا حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے نظریات پر قائم رہنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ کوئی مشین ملک میں برادری ازم سے ہٹ کر ووٹ دینے پر کسی کو مجبور نہیں کرسکتی۔ کوئی مشین ہمارے ملک کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے اپنے علاقے کے لوگوں پر اثرو رسوخ کم نہیں کرسکتی۔

لیکن یہ سب کچھ ممکن ہے اگر ہم ملک میں مشینوں کے بجائے اپنے ضمیر زندہ کرلیں اور شخصیت پرستی کے بجائے اداروں کی مضبوطی کو حرف آخر مان لیں۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت کرے اور اس کو ہر ناگہانی مصیبت سے محفوظ رکھے۔ (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔