پاکستان اور امریکا میں نئی چپقلش

سالار سلیمان  پير 13 دسمبر 2021
عالمی معاملات پر ہمیں امریکا کی ضرورت رہتی ہے۔  (فوٹو: فائل)

عالمی معاملات پر ہمیں امریکا کی ضرورت رہتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان نے امریکا کی میزبانی میں ہونے والی جمہوریت کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ورچوئل کانفرنس پاکستان کےلیے بہت اہم تھی لیکن ہمارے وزیراعظم نے اس موقع کو گنوا دیا ہے۔ میں نے یہاں وزیراعظم کا لفظ استعمال کیا ہے، کیوں؟ میں آگے ذکر کروں گا۔

وزیراعظم کے حکم پر دفتر خارجہ نے کہا ’’مستقبل میں مناسب وقت پر شامل ہوسکتے ہیں‘‘۔ دفتر خارجہ نے جو الفاظ استعمال کیے، وہ اپنے آپ میں جتنے بھی محتاط کیوں نہ ہوں لیکن وہ امریکی ہاتھی کےلیے شٹ اپ کال ہیں اور اب اس کے بعد یہ ہاتھی غصے میں آئے گا۔ اگر ہم جیسے صحافی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں تو بہت سے حلقوں نے بھی ماتھے پر ہاتھ مار کر اظہار افسوس کیا ہوگا، مستقبل کی پیش بینی پر فکرمند ہوئے ہوں گے۔

ہمارے پاس جو اب تک کی دستیاب معلومات ہیں اس کے مطابق خاں صاحب کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایسا نہ کریں، پڑوس میں مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں اور ایسے اقدامات سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ لیکن خاں صاحب تو مغرب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں اور اُن سے زیادہ کوئی بھی مغرب کو نہیں جانتا ہے۔

ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس حوالے سے مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کانفرنس میں چین اور مڈل ایسٹ کو نہیں بلایا گیا، تو ہم بھی نہیں جائیں گے۔ اس تھیوری میں اتنا خاص وزن نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم جتنا بھی چین کے دوست ہوں اور ہمارے تعلقات مڈل ایسٹ کے ساتھ جتنا مرضی اچھے ہوں، لیکن وہاں جمہوری سیٹ اپ نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں تو باقاعدہ بادشاہت ہے، وہاں ولی عہد کا سسٹم ہے، بادشاہ کی زندگی میں ہی اگلے بادشاہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ کیا ہماری یہ پوزیشن ہے کہ میزبان ہم سے پوچھ کر مہمانوں کی لسٹ بنائے گا؟

ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم اپنے موجودہ سیٹ اپ کو جتنا مرضی جمہوری کہہ لیں لیکن دنیا اس سیٹ اپ کو ہماری عینک سے نہیں دیکھتی۔ اس موجودہ سیٹ اپ میں انسانی حقوق کی کیا صورتحال ہے، اس کےلیے انسانی حقوق کی منسٹر کی اپنی بیٹی کا ٹویٹر اکاؤنٹ چیک کرلیجئے۔ اقلیتوں کے معاملے میں ابھی سیالکوٹ سے ہمارے گلے میں ہار ڈالے گئے ہیں اور ہم جتنے بھی جتن کرلیں اتنی آسانی سے یہ ہار ہم اتار نہیں سکیں گے۔ پریس کی آزادی دیکھ لیجئے۔ ہمارے لیے یہ ایک چھوٹا سا معاملہ ہوگا لیکن دنیا بھر کی مہذب اقوام کےلیے صحافت ایک مقدس فریضہ ہے اور اس پر پابندی قبول نہیں کی جاسکتی جبکہ ہمارے ہاں سارے نقاد سائیڈ لائن کردیے گئے ہیں، یعنی ’’تُن دیے باد مخالف نے سارے عقاب، ٹوٹا ہوا تھا قلم اور نقاد زیر عتاب‘‘ تو دنیا ہمارے معاملات کو ایسے دیکھتی ہے، لہٰذا ہم نے ہوسکتا ہے کہ یہ سوچا ہو کہ جائیں گے تو تند و تیز سوالات کا کیا جواب دیں گے؟

تیسری وجہ جو کہ اصل وجہ معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ صدر امریکا کا وزیراعظم پاکستان کو فون نہ کرنا۔ لیکن، امریکی صدر ہمیں کیوں فون کریں؟ جب کہ ہم نے اُن پر پھبتیاں بھی کَسی ہیں، ہم نے امریکیوں کو حقیر بھی جانا ہے۔ کیا ہمارے وزیراعظم کے متنازع بیانات ریکارڈ کا حصہ نہیں؟ کیا ہم نے فون کال کے معاملے کو خود ہی متنازع نہیں بنایا؟ کیا ہم نے اس بات کو خود ہی تماشا نہیں بنایا؟ کیا ہم نے خود ہی اس کا ہوا کھڑا نہیں کیا؟ اب اس سب کے بعد وہ کیوں ہمیں ہیلو ہائے کرنے کےلیے فون کریں گے؟ امریکی صدر کسی وجہ سے اور کسی معاملے پر ہی فون کریں گے۔ اس سے قبل بیٹھے رہیں، انتظار کرتے رہیں، وہ ہمیں فون نہیں کرنے والے ہیں۔

لیکن، ہم نے اس حرکت سے امریکا کو اپنے خلاف کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ مت بھولیں کہ امریکا پاکستان کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، اس کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ ہم نے انکار کیا ہے، امریکا اس انکار کو اپنی توہین تصور کرے گا۔ عالمی معاملات پر ہمیں امریکا کی ضرورت رہتی ہے۔ عالمی معاشی معاملات پر ہمیں امریکا کا ساتھ چاہیے ہوتا ہے۔ ابھی آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات ہی دیکھ لیجئے، ہمیں امریکی لابی کی ضرورت پڑی تھی۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دریا کی الٹی سمت تیرنے کی کیا ضرورت ہے؟

بین الاقوامی معاملات اور خارجہ امور موڈ کے تابع نہیں ہوتے۔ ایسی حرکتیں تب اچھی لگتی ہیں جب ہم خود میں کچھ ہوتے ہیں۔ حالت ہماری یہ ہے کہ ہم سود پر اربوں ڈالر کا قرض لیتے ہیں کہ ملکی معیشت چلانی ہے اور اکڑ ایسے رہے ہیں کہ جیسے امریکا نے ہمارا اُدھار دینا ہے۔ یاد کیجئے کہ کشمیر کے معاملے پر ہم نے سعودیہ سے سینگ پھنسائے تھے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہم رونے والے ہوگئے تھے اور پھر ہاتھ جوڑ کر، پاؤں پکڑ کر معاملات ٹھنڈے کیے گئے تھے۔ اب ہم نے امریکا سے نیا پنگا لے لیا ہے۔

کیا ہم اس مہم جوئی کےلیے تیار ہیں؟ کیا کسی نے یہ کیلکولیشن کی ہے کہ یہ انکار ہمیں کتنا مہنگا پڑے گا، اس کا ہمیں کیا نقصان ہوگا؟ کون ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اس انکار سے امریکا کو ایک ٹکے کا فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ کانفرنس ہمارے بغیر بھی ہو ہی جائے گی، لیکن ہم نے تعلقات کی بہتری کا نہ صرف موقع گنوایا ہے بلکہ ذاتی غصے کو ایسے نازک موقع پر نکال کر امریکا کو الٹا غصہ چڑھا دیا ہے۔ اس کے اب ظاہر ہے کہ نتائج ہوں گے اور وہ کیا ہوں گے؟ اس کےلیے ذرا معیشت پر نظر رکھیے۔ بس اتنا دیکھئے گا کہ ڈالر اب ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔