ریپڈ فورس کیلیے امریکی ہیلی کاپٹر استعمال میں لانے کا فیصلہ، پیشگی اجازت رکاوٹ

سہیل چوہدری  پير 10 فروری 2014
وزارت داخلہ کوفراہم کردہ 14ہیلی کاپٹرزمیں 8قابل استعمال،کسی بھی آپریشن سے پہلے امریکی سفارتخانے سے اجازت ضروری۔ فوٹو فائل

وزارت داخلہ کوفراہم کردہ 14ہیلی کاپٹرزمیں 8قابل استعمال،کسی بھی آپریشن سے پہلے امریکی سفارتخانے سے اجازت ضروری۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے عسکریت پسندی کے واقعات سے نمٹنے کیلیے فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس کو موثر بنانے کی خاطر وزارت داخلہ کے پاس موجود ہیلی کاپٹروں کا بیڑا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر ان ہیلی کاپٹروں کو استعمال کرنے سے پہلے امریکی سفارتخانے سے منظوری انسداد دہشت گردی آپریشن میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹرزکو امریکی سفارت خانے سے اجازت لیے بغیر استعمال کرنے کا اختیار وزار ت داخلہ کے پاس نہیں ہے، کسی بھی قسم کے آپریشن یا نگرانی، پولیس اور سول آرمڈ فورسز کو فضائی مدد فراہم کرنے کیلیے وزارت داخلہ کو امریکی سفارت خانہ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران سرحدوں پر سیکیورٹی، عسکریت پسندوں کی نقل وحرکت کی نگرانی اور ان کی غیر قانونی سرحد پار آمد ورفت روکنے کیلیے وزارت داخلہ کو 14 ہیلی کاپٹر فراہم کیے تھے اور طے یہ پایا تھا کہ ان ہیلی کاپٹر ز کی مرمت سمیت تمام اخراجات امریکی حکومت برداشت کر ے گی تاہم ان ہیلی کاپٹرز کو امریکی سفارتخانے کی منظوری کے بغیر استعمال نہیں کیا جا سکے گا، سابق ادوار میں وزارت داخلہ ان ہیلی کاپٹرز کو طے شدہ قواعد کے تحت استعمال کرتی رہی ہے۔

 photo 3_zpsf6fad684.jpg

اس وقت وزارت داخلہ کے پاس 8 ہیلی کاپٹر قابل استعمال حالت میں موجود ہیں جبکہ 6 ہیلی کاپٹر مرمت اور دیگر وجوہات کے باعث امریکا کے پاس ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹرز کا استعمال اپنی جگہ مگر معلومات کے تبادلے سیخفیہ اطلاعات افشا ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا اور عسکریت پسندوں کو اجازت لینے کے عمل کے دوران ہونیوالی تاخیر کا فائدہ مل سکتا ہے۔ وزارت داخلہ کے حکام اب امریکا سے ہونے والے معاہدے پر نظرثانی میں مصروف ہیں اور اگر امریکا معاہدے پر نظرثانی کیلیے تیار ہوگیا تو فیڈرل ریپڈری ایکشن فورس کو ہیلی کاپٹر سروس میسر آجائے گی۔ وزارت داخلہ کا موقف جاننے کیلیے رابطہ کیا گیا تو ڈائر یکٹر میڈیا وزارت داخلہ نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ امریکی سفارت خانے کے ترجمان سے بھی رابطہ کیا گیا تاہم انھوں نے کوئی مو قف نہیں دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔