انسانی حقوق کا عالمی دن...لوگوں میں احترام انسانیت پیدا کرنا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 13 دسمبر 2021
حکومت، علماء، خواتین اورسول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومت، علماء، خواتین اورسول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر منظور کیا گیا جس پر اقوام متحدہ رکن ممالک نے دستخط کیے اور یہ ممالک اس چارٹر کی روشنی میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے کے پابند ہیں۔ پاکستان بھی اس معاہدے کا فریق ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی دینے، انسانی حقوق کی صورتحال اور  ممالک کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںحکومت، علماء ، سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب )

سال کے 365 دن ہی انسانوں کے ہیں تاہم 10 دسمبر کو یہ دن منانے کا مقصد انسانی حقوق کے حوالے سے سال بھر میں ہونے والے اقدامات کا جائزہ لینا اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ ہم نے انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بے شمار کام کیا، دنیا ہمارے کام کی معترف ہے لیکن جب سیالکوٹ جیسا کوئی واقعہ رونما ہوجائے تو پوری دنیا کی نظریں ہمارے مثبت کاموں سے ہٹ کر اس واقعہ پر لگ جاتی ہیں، ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے اورہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ آنجہانی کی میت کو جب سری لنکا روانہ کیا جارہا تھا تو مجھے اس وقت شدید شرم محسوس ہو رہی تھی اور میرے میں سری لنکن سفیر سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

ہمیں اپنے معاشرے سے ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہے جو ہمارے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں درندگی بڑھتی جارہی ہے، لوگ خود ہی انصاف کر رہے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں قابل برداشت نہیں ہے،ہمیں ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی عبادتگاہوں میں جانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی ایسی کیا وجہ ہے کہ لوگوں میں مثبت کے بجائے منفی سوچ پیدا ہورہی ہے اور ان کے رویے خراب ہورہے ہیں؟ تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگوں کی اس طرح سے رہنمائی نہیں کرپا رہے جس طرح سے ہونی چاہیے۔

اسلام امن کا مذہب ہے مگر جب ایسے واقعات کے بعد لوگ اسلامی نعرے لگاتے ہیں تو دنیا اسلامی تعلیمات کے بجائے ان نعروں اور ان کے کردار کو دیکھتی ہے۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت میں ہر وقت طاق میں رہتا ہے کہ وہ کس طرح ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھاکر دنیا میں پراپیگنڈہ کرے۔ حالیہ واقعہ سے بھی اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہماری ساکھ متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے پنجاب کی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ 2018ء میں ہم پہلی مرتبہ انسانی حقوق کی پالیسی لائے، اب اس میں نئے کنونشنز شامل کر کے 2021ء کی نئی پالیسی لارہے ہیں جس سے انسانی حقوق کے حوالے سے مزید بہتری آئے گی۔

پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے بین المذاہب ہم آہنگی کی پالیسی منظور کی، اب خواجہ سرا ء کے حقوق کا ایکٹ اور خصوصی افراد کیلئے بھی قانون سازی کی جارہی ہے، ہم معاشرے کے تمام طبقات کے انسانی حقوق کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں پہلی مرتبہ برطانیہ کی طرز پر ہیومن رائٹس ایکٹ لا رہے ہیں، اس کے تحت گراس روٹ لیول تک کام کرنے میں مدد ملے گی، آئندہ ماہ اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ تمام اضلاع میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کرتا ہے، ہمارے پاس پورٹل کے ذریعے فوری واقعہ رپورٹ ہوتا ہے اور 10 منٹ میں ایکشن لیا جاتا ہے۔

فیصل آباد واقعہ کے ملزمان کو 30منٹ کے اندر گرفتار کر لیا گیا تھا، ہم فوری ایکشن یقینی بنا رہے ہیں تاکہ بروقت انصاف مل سکے۔ ہمارے بچے، بڑے، خواتین سب غیر محفوظ ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی کے افسوسناک کیسز سامنے آرہے ہیں۔ ہمیں مسجد، چرچ، مندر و دیگر عباتگاہوں سے لوگوں کو انسانیت کا درس دینا ہوگا اور بدصورت رویوں کو ہرحال میں بدلنا ہوگا، اس حوالے سے سب کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا اور عملی طور پر کام کا آغاز کرنا ہوگا۔

سیالکوٹ واقعہ میں ملک عدنان واحد شخص تھا جو انسان تھا، وزیراعظم نے اسے سراہا ہے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی اسے ایوارڈ دیا گیا۔ اس کا مقصد ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہے جو حادثے میں آنکھیں بند نہیں کرتے بلکہ مشکل میں پھنسے ہوئے کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مفتی راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور)

10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے کیونکہ اس دن اقوام متحدہ کی جانب سے 1948 ء میں انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا گیا۔ اس چارٹر کو 73 برس مکمل ہوچکے ہیں ۔ ہر ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہاں رہنے والے عارضی یا مستقل افراد کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دے، اس مقصد کیلئے تمام ممالک اقدامات کرتے ہیں۔ آئین پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و حدیث کے مخالف نہیں ہے۔

حضرت محمدﷺ کی جانب سے جن انسانی حقوق کو عمل میں لایا گیا، وہی حقو ق کچھ اضافے کے ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں موجود ہیں۔ پاکستان نے بھی ان پر دستخط کر رکھے ہیں اور ان پر کام کرنے کا پابند ہے۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم، دونوں ہی پاکستان میں برابر کے شہری ہیں، دونوں ہی محب وطن ہیں اور پاکستانیت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بعض مسلمان یہاں رہنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتے ہیں جو درست نہیں،ریاست کوایسے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک تمام شہریوں کو احساس برتری یا کمتری سے باہر نکل کر ایک دوسرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔

بیرون ملک سے یہاں آکر رہنے والے خواہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، مواحد ہیں۔ انہوں نے پاسپورٹ کی صورت میں ریاست سے معاہدہ کر رکھا ہے اور ریاست ان کے جان و مال کے تحفظ کی ضامن ہے۔ ہم پر قانونی اور شرعی اعتبار سے واجب ہے کہ اگر کوئی شخص قانون شکنی کرتا ہے تو قانون ہاتھ میں نہ لیں بلکہ اسے آئین کے دیئے ہوئے حقوق ملنے چاہئیں اور قانون کے مطابق سزا ہونی چاہیے۔

ہم نے مذہب کے حوالے سے نوجوانوں میں حساسیت پیدا کر دی ہے، ہمیں اس بڑھتی ہوئی حساسیت کو نارملائز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت، علماء، اساتذہ، والدین اور میڈیا اپنا کردار ادا کریں، نوجوانوں اور بچوں کو ضروریات زندگی کے لوازمات سکھائے جائیں۔ صرف دستخط کرنے یا اپنا نام لکھنے والے کو پڑھا لکھا قرار دینا درست نہیں، ملک میں بہت کم لوگ ہیں جو سماجیات، مذاہب اور معاشرت کو سمجھتے ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام نے پڑھے لکھے جاہل پیدا کیے ہیں، مسائل کے موثر حل اور رویوں میں تبدیلی کیلئے ہمیں 15 سے 30 برس کی عمر کے افراد پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں لوگوں میں جینے کی امید پیدا کرنی ہے نہ کہ انہیں موت کی طرف دھکیلنا ہے، صرف اس سے ہی معاشرے میں استحکام آسکتا ہے۔ سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں میں ہجوم کی طرف سے قانون ہاتھ میں لینا شرعی اور قانونی اعتبار سے درست نہیں، ’موب جسٹس‘ کے بجائے سب کو اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا۔  اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔

آئمہ محمود (نمائندہ خواتین )

انسانی حقوق کے عالمی دن کا مقصد صرف تقریبات نہیں ہے بلکہ اپنی خرابیاں اور خامیاں تلاش کرکے ان کے حل کیلئے اقدامات کرنا ہے۔پاکستان کا جائزہ لیں تو انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان، خواتین کے حوالے سے 6 خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔ ہماری خواتین غیر محفوظ ہیں، انہیں کام کی جگہ پر ہراسمنٹ، کم معاوضہ سمیت بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

افسوس ہے کہ آئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بھی صنف کی بنیاد پر خواتین کا استحصال ہو رہا ہے۔ انہیں ایک سا کام ایک سا معاوضہ نہیں مل رہا، انہیں تعلیم، صحت، تنظیم سازی جیسے حقوق برابری کی بنیاد پر نہیں مل رہے۔ بدقسمتی سے اس وقت 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ خواتین کو تحفظ دینے کیلئے کرائسس سینٹرز بنائے گئے مگرعملدرآمد کرنے اور متاثرہ خاتون کی مدد کیلئے قانونی سپورٹ سٹرکچر نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔

خواتین کا استحصال ریاست کی کمزوری ہے، خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہوشربا اعدا دو شمار صورتحال کی سنگینی بتارہے ہیں، ہمیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرکے انہیں دور کرنا ہوگا لیکن اگر ہم ان سے نظریں چراتے رہے تو صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ تشدد، انتشار اور موقع پر انصاف کی روایت ہمارے حکومتی نمائندوں نے ایوان میں ڈالی ہے، اسمبلی میں کاپیاں پھاڑنے اور گالیاں دینے کو روٹین بنا لیا گیا، جب تک حکمران خود کو قانون کا پابند نہیں کریں گے اور عملی طور پر مثال قائم نہیں کریں گے تب تک ملک میں قانون کی پاسداری نہیں ہوسکتی۔

حقوق کی بات کرنے والوں پر مغرب کے ایجنٹ ہونے کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے حالانکہ خواتین تو آج بھی اپنے وہ حقوق مانگ رہی ہیں جو دین اسلام نے 1400 برس قبل انہیں دیئے تھے جن میں تعلیم، صحت، انصاف و دیگر حقوق شامل ہیں۔میرا سوال ہے کہ ان میں کونسے حقوق غلط ہیں اور مغرب کا ایجنڈہ ہیں؟مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف 15، 16 برس کی لڑکیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کرتی ہی؟

بڑی عمر کی خواتین کیوں نہیں کرتی؟ ہمیں معاشرے سے مذہب کی جبری تبدیلی، غیرت کے نام پر خواتین کے قتل جیسی روایات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس میں سماجی تنظیموں، حکومت اور میڈیا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔ ہمیں لوگوں میں احترام انسانیت کی سوچ پیدا کرنا ہوگی اور انہیں یہ تعلیمات بتانا ہونگی کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ملک میں 2 کروڑ افراد سے جبری مشقت لی جارہی ہے، جن میں 75 فیصد خواتین ہیں، اس لیبر فورس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، انہیں قانونی تحفظ دیکر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانا ہونگے۔

ہمیں انصاف پر مبنی معاشرہ تشکیل دینا ہے، ایسا معاشرہ جس میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو، قانون کی نظر میں سب برابر ہوں اور کوئی طاقت کے بلبوتے پر کسی فرد، ماں، بہن، بیٹی کو قتل کر کے بچ نہ پائے۔ ہماری خواتین خوف میں ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل ہوں، اس خاندان کی ماں کس طرح اپنے بچوں کو برابری کا درس دے سکتی ہے؟ اس وقت ضرورت یہ ہے معاشرے کی ذہن سازی کی جائے۔ اس کیلئے تعلیمی نصاب میں انسانی حقوق کے حوالے سے موثر مواد شامل کیا جائے۔

علماء کرام بھی اپنے خطبات میںا نسانی حقوق کی تعلیم دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ محض قانون سازی نہ کرے بلکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن انسانی حقوق پر سب کا اتفاق ہے، پہلے ان پر کام کر لیا جائے، سب کو ساتھ ملا کر لوگوں کو انسانیت اور برابری کا درس دیا جائے، انہیں ایک دوسرے کا احترام، صبر اور برداشت سکھائی جائے، اس حوالے سے نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔

شاہنواز خان (نمائندہ سول سوسائٹی )

10 دسمبر 1948ء ایک اہم تاریخی دن ہے۔ اس دن اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا گیا۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد انسانی حقوق پر مبنی دنیا کی تشکیل دینے کیلئے تمام مذاہب میں لوگوں کو دیئے گئے حقوق کو یکجا کرکے 30 صفحات پر مشتمل ایک اہم چارٹر بنایا گیا جس پر پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دستخط کیے اور یہ سب اس پر عملدرآمد کرنے اور اس حوالے سے اقدامات کرنے کے پابند ہیں۔

1973ء کے آئین میں آرٹیکل 8 سے 28 تک انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔ لوگوں کو یہ تمام حقوق فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کی۔ہمیں 1400برس پہلے ہی بتا دیا گیا کہ انسانی حقوق کیا ہیں اور ان پر عملی طور پر کام بھی کیا گیا۔ دین اسلام کا بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ گہرا تعلق ہے، ہمارا دین مساوات پر مبنی معاشرے کی بات کرتا ہے اور یہ انسانی حقوق ہی سے ممکن ہے۔

موجودہ دور حکومت اور صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق اعجاز عالم آگسٹین کی قیادت میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔ وفاقی سطح پر بھی اچھے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہوئی۔ کرتارپور راہداری اس کی ایک اہم مثال ہے۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی اور معاشرتی مساوات پر بہت کام کیا ہے تاہم کسی ایک واقعہ سے ہماری ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے اور دنیا ہم پر تنقید شروع کر دیتی ہے۔

سیالکوٹ معاملے نے انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ہونے والے تمام کاموں کو پس پشت ڈال دیا، اس سے ہماری ساکھ کو جو نقصان ہوا ہے اسے ٹھیک کرنے میں طویل وقت لگے گا۔ ہم انسانی حقوق کے حوالے سے بہت کام کر رہے ہیں، درست نتائج حاصل کرنے اور عالمی ساکھ بہتر بنانے کیلئے ہمیں ملکی بدنامی کے واقعات کو روکنا ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ہمارے ہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے تہوار آزادی سے مناتے ہیں مگر مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں ہندووآتہ کی سوچ کے تحت مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر حملے کیے جاتے ہیں، ان کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے اور وہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہورہی ہے، دنیا کو مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے کردار کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔