ایک ہزار سے زیادہ ٹانگوں والا کنکھجورا دریافت

ویب ڈیسک  جمعـء 17 دسمبر 2021
اس کنکھجورے کی چوڑائی صرف 0.95 ملی میٹر جبکہ لمبائی 95.7 ملی میٹر ہے۔ (فوٹو: نیچر/ سائنٹفک رپورٹس)

اس کنکھجورے کی چوڑائی صرف 0.95 ملی میٹر جبکہ لمبائی 95.7 ملی میٹر ہے۔ (فوٹو: نیچر/ سائنٹفک رپورٹس)

پرتھ: آسٹریلوی اور امریکی سائنسدانوں نے زمین کی 60 میٹر گہرائی میں ایک ایسا کنکھجورا دریافت کرلیا ہے جس کی 1,306 ٹانگیں ہیں۔ یہ اب تک کسی بھی جانور میں ٹانگوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔

اس سے پہلے سب سے زیادہ ٹانگوں کا عالمی ریکارڈ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پائے جانے والے ایک اور کنکھجورے ’’الاکمی پلینی پیز‘‘ (Illacme plenipes) کے پاس تھا جس کی 750 تک ٹانگیں ہوتی ہیں۔ نئے دریافت ہونے والے کنکھجورے میں اس سے بھی 556 ٹانگیں زیادہ ہیں جو بہت بڑا فرق ہے۔

یہ کنکھجورا اگست 2020 میں آسٹریلیا کے علاقے ’’ایسٹرن گولڈ فیلڈز‘‘ میں معدنیات پر تحقیق کےلیے کھدائی کے دوران 60 میٹر گہرائی سے نکلا تھا۔ یہ دھاگے جیسا پتلا اور لمبا دکھائی دیتا ہے۔

مزید کھدائی سے اس کنکھجورے کے مزید چار زندہ نمونے برآمد ہوئے جنہیں سائنسدانوں نے محفوظ کرلیا۔

جب ان کی جسمانی اور جینیاتی (جنیٹک) ساخت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ کنکھجورے کی ایک نئی نوع ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔

لہٰذا اسے ’’یوملیپیس پرسیفون‘‘ (Eumillipes persephone) کا سائنسی نام دیا گیا ہے جو یونانی زبان میں ہے اور جس کا مطلب ’’اصلی ہزار پیروں والی پرسیفون‘‘ ہے۔ (یونانی دیومالائی داستانوں میں ’پرسیفون‘ نام کی ایک دیوی کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو زمین کی اتھاہ گہرائی یعنی ’پاتال‘ میں رہتی ہے۔)

مزید تفصیلات کے مطابق، اس نودریافتہ کنکھجورے کی چوڑائی صرف 0.95 ملی میٹر (ایک ملی میٹر سے بھی کم)، جبکہ لمبائی 95.7 ملی میٹر ہے۔ یعنی چوڑائی کے مقابلے میں اس کی لمبائی 100 گنا زیادہ ہے۔

اس کا جسم 330 قطعات (segments) سے مل کر بنا ہے جبکہ اس کی ٹانگیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں جو خردبین ہی سے نمایاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

یوملیپیس پرسیفون کی ٹانگیں گول اور نوکیلی ہیں لیکن اس کی آنکھیں نہیں۔ اس کے سر پر چونچ جیسی ساخت ہے جس پر انٹینا موجود ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس کنکھجورے کی ٹانگیں اور بڑی تعداد میں جسمانی قطعات سے اس کو زیرِ زمین چھوٹے شگافوں کے راستے آگے بڑھنے میں بڑی سہولت حاصل ہوئی ہوگی۔

چونکہ یہ زمین کی خاصی گہرائی میں رہتا ہے، لہٰذا ایسٹرن گولڈ فیلڈز میں بڑے پیمانے پر جاری کان کنی سے اس کی قدرتی پناہ گاہوں کو شدید خطرہ ہے۔

ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ کان کنی کے دوران اس علاقے میں زیرِ زمین پائے جانے والے جانوروں اور ان کی قدرتی پناہ گاہوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔

نوٹ: اس دریافت کی تفصیل نیچر پبلشنگ گروپ کے آن لائن تحقیقی مجلّے ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔