میاں صاحب! اب کیا فائدہ

ایاز خان  پير 10 فروری 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

طاقت اور دولت یکجا ہو جائیں تو پھر انھیں قبضہ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کرکٹ پر کبھی انگلینڈ اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اب اس میں ایک اور طاقت کا اضافہ ہو گیا ہے اور یہ اضافی طاقت گوروں اور کینگروز کی بھی باپ ثابت ہوئی ہے۔ آئی سی سی پر اب دو ملک حکمرانی نہیں کر سکتے‘ اس پر ٹرائیکا کا راج قائم ہو گیا ہے۔ یہ تیسری طاقت انڈیا ہے جس نے پیسے کی ایسی جھلک دکھائی کہ ’’بگ تھری‘‘ کے مخالف ایک ایک کر کے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ ’’بگ تھری‘‘ فارمولے کی منظوری کے لیے دس میں سے آٹھ ووٹوں کی ضرورت تھی۔ ایک موقع پر پاکستان‘ جنوبی افریقہ‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش اس فارمولے کی مخالفت کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ بھارتی زلفوں کا فوری اسیر ہو گیا تھا لیکن کرکٹ لور بنگالیوں نے احتجاج کے ذریعے اس ’’محبت‘‘ میں دراڑ ڈال دی۔ خیر یہ پرانی بات ہے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو رام کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔آئی سی سی کے اجلاس سے ایک دن پہلے تک جنوبی افریقہ بھی ہمارے ساتھ تھا مگر اس نے بھی اپنا مفاد دیکھا اور ’’بگ تھری‘‘ کے ساتھ جا ملا۔ ووٹنگ ہوئی تو پاکستان کا ساتھ دینے والوں میں صرف سری لنکا تھا۔ ان دونوں نے ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ’’بگ تھری‘‘ کو مخالفوں سے ووٹ لینے کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’بگ تھری‘‘ کو بہت کچھ ملا ہے مگر سب کچھ لینے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔

اوپر کی ’’واردات‘‘ سنگا پور میں ہوئی جب کہ ایک ’’وار دات‘‘ وطن عزیز کے اندر بھی ہوئی ہے۔ چیئرمین پی سی بی جنھیں عدالتی حکم کے بعد یہ عہدہ دوبارہ ملا اور جنھیں اب محترم وزیر اعظم نے فارغ کردیا ہے، سنگا پور جانے سے پہلے وزیر اعظم سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وزیر اعظم انھیں گائیڈ کریں کہ اس اہم معاملے پر کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ ذکاء اشرف دو دن تک اسلام آباد میں مقیم رہے اور وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے پیغام بھجواتے رہے مگر انھیں ملاقات کا شرف نہیں بخشا گیا۔ وزیر اعظم کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف بھی ہیں، اس لیے کرکٹ بورڈ کے فارغ کیے گیے چیئرمین کا یہ فیصلہ بالکل درست تھا کہ وہ اپنے چیف سے ملاقات کرتے اور گائیڈنس لیتے۔ ممکن ہے وزیر اعظم کی مصروفیات اس قدر ہوں کہ وہ 48 گھنٹوں میں سے دس منٹ بھی ملاقات کے لیے نہ نکال سکتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں چیئرمین پی سی بی کی شکل پسند نہ ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذکاء اشرف کے سابق صدر آصف علی زرداری سے تعلقات انھیں نا پسند ہوں۔ اب انھیں فارغ کردیا گیا ہے تو یہی بات سچ ہے کہ میاں صاحب ذکا اشرف کو پسند نہیں کرتے تھے اور اسی وجہ سے میاں صاحب نے ان سے ملاقات نہیں کی۔ وجہ کوئی بھی ہو یہ ملکی کرکٹ کے مستقبل کا معاملہ تھا، اس لیے وزیر اعظم نواز شریف کو ذکاء اشرف سے ملاقات بھی کرنی چاہیے تھی اور یہ بتانا بھی چاہیے تھا کہ انھیں آئی سی سی کے اجلاس میں ملک کی نمایندگی کرتے ہوئے کیا موقف اختیار کرنا ہے۔ ملاقات نہیں کرنی تھی تو نہ کرتے دس منٹ فون پر ہی بات کر لیتے۔

میاں صاحب نا صرف کرکٹ لور ہیں بلکہ کرکٹر بھی رہے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اس ساری صورتحال میں موثر کردار ادا کر سکتے تھے۔ میاں صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کے نعرے پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ بھارتی لیڈر شپ کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ بھارتی عوام میں بھی انھیں پذیرائی حاصل ہے۔ میاں صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اس اہم قومی معاملے میں بھارتی لیڈر شپ سے بات کرتے اور کوئی بہتر حل نکالنے کی صورت پیدا کرتے۔ اگر وہ خود ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے تو ان کے پاس شہر یار خان جیسا بہترین سفارتکار موجود ہے۔ شہر یار خان جو ان دنوں بیک چینل ڈپلومیسی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں کرکٹ ڈپلومیسی میں بھی موثر ثابت ہو سکتے تھے۔ خیر اب سانپ گزر چکا ہے اس لیے لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین این سری نواسن جو اب آئی سی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین بھی منتخب ہو چکے ہیں‘ نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کا ساتھ نہ دے کر گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ حمایت کی صورت میں پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے کا سوچا جا سکتا تھا اب ایسا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم طالبان کے ساتھ مذاکرات جیسے اہم مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں لیکن دیگر قومی امور بھی ان کی توجہ کے طالب ہیں۔ اور کرکٹ بھی ان قومی امور میں سے ایک ہے۔

محض ذکاء اشرف کو ہٹانے اور گیارہ رکنی عبوری انتظامی کمیٹی کے قیام سے بات نہیں بنے گی۔ بنگلہ دیش میں اسی ماہ ایشیا کپ اور مارچ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا انعقاد ہونا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان نے ان دونوں یا کسی ایک ایونٹ میں شرکت بھی کرنا ہے یا نہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ وزارت داخلہ کو کئی مکتوب بھجوا چکا ہے لیکن وہاں سے ابھی تک جواب نہیں آیا۔ مجھے تو ذکاء اشرف کی معصومیت پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ موصوف نے سنگاپور میں فرمایا تھا کہ وہ وزیر اعظم سے ملاقات کر کے ان سے ہدایات لیں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کرنا ہوتی تو سنگا پور جانے سے پہلے کرتے۔ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء کی اس بات پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ احسان مانی یا شہر یار خان کو پی سی بی کی ذمے داریاں سونپی جائیں۔ شہر یار عبوری کمیٹی میں آگئے ہیں لیکن انھیں جب تک پی سی بی کا سربراہ نہیں بنایا جاتا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ شہر یار خان چونکہ بھوپال کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کا بھارت میں بھی خاصا اثرو رسوخ ہے۔ احسان مانی کہتے ہیں کہ ’’بگ تھری‘‘ فارمولے کی منظوری آئی سی سی کے آئین کے منافی ہے اور اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ مانی صاحب نے فیصلہ پاکستان اور سری لنکا پر چھوڑ دیا ہے۔

میاں صاحب یہ وہی کرکٹ کا کھیل ہے جو آپ بڑے شوق اہتمام سے کھیلا کرتے تھے۔ اب اس پر مشکل وقت آن پڑا ہے تو آپ کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس کی مدد کریں۔ عمران خان سے اب اس لیے امید نہیں ہے کہ وہ صرف سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں اب امور سیاست سے آگے نہیں بڑھتیں۔ البتہ کبھی کبھار کرکٹ کے حوالے سے کوئی بیان دے کر اپنی پرانی محبت کا اظہار ضرور کر دیتے ہیں۔ لیڈروں کے لیے کرکٹ شاید ایک فضول ساکھیل ہی رہ گیا ہو لیکن اس قوم کے لیے یہ بڑا اہم کھیل ہے۔ اگر کبھی کبھار کہیں سے اچھی خبر آتی ہے تو صرف کرکٹ کے میدانوں سے۔ وہ بھی دیار غیر سے‘ کیونکہ اپنے میدان تو برسوں سے ویران ہیں۔ میاں صاحب آپ کی دیگر مصروفیات سے ہمیں انکار نہیں مگر کچھ توجہ کرکٹ کی طرف بھی دے لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔