گوروں کو سمجھانا پڑے گا

سلیم خالق  جمعـء 17 دسمبر 2021
مہمان ٹیم کرسمس اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانے کیلیے بے چین ہے

مہمان ٹیم کرسمس اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانے کیلیے بے چین ہے

رات تقریباً پونے ایک بجے کی بات ہے، موبائل پر میسیج آیا، میں نے چیک کیا تو لاہور سے رپورٹر عباس رضا نے ایک ویسٹ انڈین اخبار کا لنک شیئر کیا ہوا تھا کہ ’’مزید کرکٹرز کے کورونا ٹیسٹ مثبت آ گئے، ٹیم کا دورئہ پاکستان خطرے میں پڑ گیا‘‘ مجھے بھی اسی وقت محسوس ہو گیا کہ یہ سیریز جاری رہنا شاید اب ممکن نہ رہے۔

اگلی صبح پی سی بی کی پریس ریلیز کا انتظار کیا جاتا رہا مگر خاموشی رہی، میڈیا ڈپارٹمنٹ جو معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اہم معاملات پر ایسے خاموش ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، میڈیا اپنے طور پر قیاس آرائیاں کرتے رہا یا ’’باس‘‘ نے اپنے دوستوں کو جو معلومات فراہم کر دیں وہ انہی کو چلاتے رہے مگر باقاعدہ طور پر کچھ سامنے نہیں آیا،پی سی بی سے اگر پوچھا جاتا تو جواب ملتا کہ ’’ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ ہی اپنے کھلاڑیوں کے حوالے سے کوئی اعلان کرے گا‘‘ اس سے پہلے جب تین مہمان کرکٹرز کے کوویڈ ٹیسٹ مثبت آئے تب بھی یہی کہا جاتا رہا، ایسے میں مجھے یاد آیا کہ جب نیوزی لینڈ میں پاکستانی کرکٹرز کے ٹیسٹ مثبت آئے تب ہمارا بورڈ پوچھنے پر کہتا تھا کہ ’’ہم نہیں نیوزی لینڈ ہی کچھ بتائے گا‘‘ اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معلومات چھپائی جاتی ہیں، آخر کار ویسٹ انڈین بورڈ نے میڈیا ریلیز میں اس حوالے سے صورتحال واضح کی،6 کرکٹرز کی عدم دستیابی نے دورے کو خطرے میں ڈال دیا۔

مہمان ٹیم کرسمس اپنے اہل خانہ کے ساتھ منانے کیلیے بے چین ہے، اسی یہ خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں مزید مثبت کیسز آنے پر باقی کھلاڑی بھی اگلے 10دن کیلیے پاکستان میں ہی نہ پھنس جائیں اسی لیے واپسی پر اصرار شروع ہو گیا، بڑی مشکل سے انھیں تیسرا ٹی ٹوئنٹی کھیلنے پر قائل کیا گیا، حالانکہ اس میں بھی ایک طرح سے خطرہ ہی مول لیا گیا، کرکٹ ایک کھیل ہے اور انسانی جانوں سے قیمتی نہیں،پی سی بی کو مالی نقصان ضرور ہوا لیکن کوویڈ کے دنوں میں ایسا ہو جاتا ہے، جس وقت ابتدائی تین کرکٹرز وائرس کی زد میں پائے گئے باقی ٹیم کلیئر تھی مگر چند دن بعد انہی میں سے مزید کھلاڑی و آفیشلز بھی کورونا زدہ نکلے، اسی طرح کل ٹیسٹ منفی ضرور آئے لیکن خدانخواستہ اگلی بار ان میں سے مزید کے نتائج بھی مثبت آ سکتے ہیں۔

یہ وائرس تو چھپا بھی رہتا ہے،دوسرے میچ میں شائی ہوپ پاکستانی کرکٹرز سے چند قدم کے فاصلے پر وکٹ کیپنگ کرتے رہے، عقیل حسین نے بولنگ کی، اب دونوں کورونا کی زد میں پائے گئے، ایسے میں زیادہ بہتر تو یہی تھا کہ تیسرا میچ بھی ملتوی کر دیا جاتا، پی سی بی کا کہنا ہے کہ ویسٹ انڈین ٹیم دوران سفر کورونا کا شکار ہوئی، البتہ اس وائرس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کوئی زد میں آیا، کرکٹرز اپنے ملک سے ٹیسٹ کروا کر یو اے ای آئے، وہاں پر کوئی بھی بغیر ٹیسٹ کے سفر نہیں کرسکتا، یومیہ 100،200 کیسز ہی سامنے آتے ہیں۔

پاکستان میں بھی بائیو ببل بنا ہوا تھا، ایسے میں تعین کرنا ناممکن ہے کہ وائرس کہاں سے لگا،البتہ ہمارے لیے بدقسمتی کی بات ہے کہ2 سال میں 5 بار ہماری کرکٹ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مسلسل2 برس پی ایس ایل کوکوویڈ کیسز کے سبب درمیان میں روکنا پڑا، نیوزی لینڈ کی ٹیم سیکیورٹی کے بے بنیاد خدشات پر واپس چلی گئی، انگلینڈ نے دورہ ملتوی کر دیا، اب ویسٹ انڈین نے بھی ٹور ادھورا چھوڑ کر واپسی کا فیصلہ کر لیا، آسٹریلوی وفد ان دنوں کراچی میں ہی موجود ہے، ان معاملات کا اس پر خراب اثرپڑا ہو گا، پہلے گورے سیکیورٹی کو جواز بنا کر پاکستان نہیں آتے تھے۔

اب ان کو کورونا کا نیا بہانہ مل گیا، مجھے ڈر ہے کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی ٹیمیں اب بائیو سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے ناز نخرے دکھائیں گی،پاکستان کرکٹ کے لیے یہ صورتحال خاصی دشوار ہے، شکر ہے ہمارے کھلاڑی محفوظ ہیں، اس لیے دنیا سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ویسٹ انڈین ٹیم خود وائرس لے کریہاں آئی لیکن گوروں کو سمجھانا آسان نہ ہو گا، نیوزی لینڈ کی ٹیم نے اب تک نہیں بتایا کہ دورہ کس کی دھمکی پر ادھورا چھوڑا، کون سی سیکیورٹی تھریٹ تھی؟ وہ ہمارے انتظامات پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں گے، سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے برسوں پاکستانی میدان ویران رہے۔

اب آباد ہی رہنا چاہئیں، پی ایس ایل کی غلطیوں کے سبب دنیا کا ہم پر اعتماد کم ہوا، اب یہ پی سی بی کا کام ہے کہ وہ ویسٹ انڈیز سے سیریز کے ادھورا رہنے کی ذمہ داری خود پر نہ آنے دے، سب کو یقین دلائیں کہ یہاں انتظامات مکمل تھے، ویسے بھی پاکستان میں کورونا کیسز بہت کم ہیں، ہوم سیریز میں بھی بائیو ببل کیلیے غیرملکی کمپنیز کی خدمات حاصل کرنی چاہیں، سب سے اچھا تو یہ رہے گا کہ ایک ہوٹل مکمل طور پر بک کرا لیا جائے، وہاں ٹیموں کے ساتھ امپائرز وغیرہ بھی رہیں،اس سے وائرس سے بچا جا سکے گا،اخراجات تو بڑھیں گے مگر موجودہ حالات میں چارٹرڈ فلائٹس کا ہی استعمال کرنا چاہیے۔ تیسرے ٹی ٹوئنٹی سے 2 گھنٹے قبل تک پتا ہی نہیں تھا کہ میچ ہو گا یا نہیں، اس غیریقینی صورتحال سے بھی شاید کراؤڈ کی تعداد پر فرق پڑا ہوگا۔

بڑے افسوس بلکہ شرم کی بات تھی کہ ویسٹ انڈین کے نوجوان کرکٹرز زبردست ہٹنگ کر رہے تھے اور چند ہزار لوگ ہی انھیں داد دینے کیلیے اسٹیڈیم میں موجود تھے، یہ ادھوری سیریز پی سی بی کے لیے بہت سے سوال چھوڑ گئی، مارکیٹنگ سمیت بعض شعبوں نے اپنے فرائض کوانجام دینے میں غفلت برتی، میڈیا ڈپارٹمنٹ نے معلومات چھپائیں جس سے افواہیں پھیلیں، یقیناً رمیز راجہ نے بھی ان باتوں کا نوٹس لیا ہوگا، اب پی ایس ایل آرہی ہے، ایسی غلطیوں کی اس میں گنجائش نہیں ہوگی،2 بار لیگ درمیان میں روکنا پڑی اور یو اے ای میں تکمیل ہوئی، اب ملکی کرکٹ تیسری بار ایسی غلطی کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے ایونٹ کا بہترین انداز میں انعقاد کرانا ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔