منی بجٹ مہنگائی کو روکنا ہوگا

توقع ہے کہ گوادر اور مکران کوسٹ کے عوام کو ریلیف دینے میں بنیادی سہولتوں کی مناسبت سے فیصلے کیے گئے ہیں۔


Editorial December 18, 2021
توقع ہے کہ گوادر اور مکران کوسٹ کے عوام کو ریلیف دینے میں بنیادی سہولتوں کی مناسبت سے فیصلے کیے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

حکومت نے 360ارب روپے کے منی بجٹ کو حتمی شکل دیدی ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 140 ضروری قابل استعمال اور صنعتی اشیا پر17فیصد سیلز ٹیکس لگایا جائے گا ، موبائل فون کالز پر انکم ٹیکس کی شرح میں50 فیصد اضافہ ہوگا۔

پارلیمنٹ سے منی بجٹ منظور ہونے سے ہر چیز مہنگی ہوجائے گی۔ ملک میں مہنگائی کی ایک اور لہر آنے سے دودھ ، اناج ، بیکری کی اشیاء ، گوشت ، چکن، سونا، سائیکلیں، کاریں، الیکٹرک کاریں، موبائل فون جیسی اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔

مہنگائی اور بھوک کے عالمی خطرات اپنی جگہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں، لیکن ملکی معیشت کو معاشی خدشات کے اژدہے نے گھیر لیا ہے، ملکی معیشت مختلف افواہوں ، قیاس آرائیوں سے نمٹ رہی ہے، ماہرین معاشیات ہولناک پیشگوئیوں سے صورت حال کو مزید سنگین قرار دے رہے ہیں، ملکی معیشت کے بارے میں خدشات پر مبنی اقتصادی تجزیوں کے مطابق ارباب اختیار نے ایک اعصابی حصارکو توڑنے کی مہم سرکرنے کے لیے تیاری کر لی ہے۔

ادھر بعض عناصرکا کہنا ہے کہ منی بجٹ قومی سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے حکمرانوں کو سنگین سوالات کا سامنا ہے، افغانستان میں انسانی المیے اور ممکنہ بحران کے بارے میں تشویش میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے پھرکہا ہے کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا، دنیا ایک دردناک انسانی بحران سے صرف نظر نہیں کرسکتی ، یوں پاکستان اور پورے خطے کو بے ہنگم مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں مگر حکمرانوں کی داخلی کشمکش اور محاذ آرائی سے ایک یقینی اتفاق رائے کا کوئی عندیہ نہیں ملتا ، عوام کو وعدوں کے ذریعے بہلایا جارہا ہے، جب کہ خطرات اور اندیشوں نے سماجی صورتحال کی تشویش میں اضافے کے امکانات پیدا کیے ہیں۔

دوسری جانب زمینی حقائق سے جڑے خدشات میں منی بجٹ کو عوام ایک اعصابی جنگ سے تعبیرکر رہے ہیں، عوام کے پاس ایک ہی جواب رہ گیا ہے کہ وہ صورتحال کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں، کیا کریں ، کہاں جائیں؟ جب کہ ماہرین اقتصادیات منی بجٹ کو اسی سمت ایک ناگزیر کوشش قرار دیتے ہیں ، حکومت کے ناقدین کے مطابق منی بجٹ عوام کی مشکلات کی آخری ''آہ'' ہے۔

اقتصادی مبصرین کا کہنا ہے منی بجٹ کے منفی اثرات کو جزوی طور پر کم کرنے کے لیے41ارب روپے کا سبسڈی پلان بھی تیار کیا گیا ہے تاہم اس سے360 ارب روپے کے منی بجٹ کے مکمل اثرات کو کم نہیں کیا جاسکے گا جس سے تقریباً 140 اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ حکومت بجلی پر سبسڈی بھی واپس لینے پر عمل پیرا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق نے گزشتہ روز مشیر خزانہ شوکت ترین کو منی بجٹ پر بریفنگ دی۔

ذرایع نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ بجٹ میں فون کالز پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے حکومت نے5 ارب روپے آمدنی کے لیے سیلولر سروسز پر انکم ٹیکس کو 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مقامی ڈرامہ پروڈیوسرز کے دباؤ پر حکومت نے غیر ملکی پروڈیوس کیے گئے ٹی وی ڈراموں، سیریلز اور غیر ملکی اداکاروں کے ساتھ اشتہارات پر انکم ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (REIT) سرمایہ کار کے منافع پر 35 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔

ذرایع نے مزید کہا کہ حکومت نے کم از کم 140 اقسام کی قابل استعمال اشیا اور صنعتی مشینری پر17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ 353 ارب روپے اکٹھے کیے جا سکیں۔ ریونیو کا بڑا حصہ تقریباً 300 ارب روپے درآمدی مرحلے پر80 اشیاء پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگا کر حاصل کیا جائے گا۔

ان میں سے زیادہ تر اشیاء ضروری سامان ہیں اور لگژری آئٹمز میں نہیں آتیں۔ ان اشیاء میں ادویات کا خام مال، سیریلز، زندہ جانور، پرندے، انڈے، گوشت، مچھلی، تازہ سبزیاں، مچھلیوں اور جانوروں کی خوراک، جرائد و رسائل شامل ہیں۔ ادویات کے خام مال پر17فی صد جی ایس ٹی کے نفاذ سے حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فارماسیوٹیکل سیکٹر کا تخمینہ تقریباً 700ارب روپے ہے اور 530ارب روپے غیر دستاویزی سپلائی چین ہے جو ٹیکس چوری کا باعث بن رہی ہے۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان میں 800سے زائد فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز رجسٹرڈ ہیں لیکن ایف بی آر میں صرف 453مینوفیکچررز رجسٹرڈ ہیں۔ درآمد شدہ پلانٹ اور مشینری پر بھی 17فیصد سیلز ٹیکس کی شرح عائد ہوگی۔

بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے منصوبوں، قابل تجدید توانائی کی مشینری جیسے شمسی، ہوا، نیوکلیئر پاور جنریشن کی مشینری پر بھی17فیصد سیلز ٹیکس لگے گا۔ کان کنی کی مشینری، سنگل سلنڈر انجنوں کے لیے سی کے ڈی کٹس پر بھی 17جی ایس ٹی وصول کیا جائے گا۔9 ارب روپے کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے حکومت نے ایک درجن اشیاء کی مقامی سپلائی پر17فیصد سیلز ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان میں بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں میں فروخت ہونے والی اشیاء، فلائٹ کچن میں پیش کی جانے والی کھانے کی چیزیں، مرغی کے گوشت کی چٹنی اور مصنوعات، مقامی طور پر تیار کردہ سبزیوں کا خام تیل، چھڑکاؤ، ڈرپ اور اسپرے پمپ شامل ہیں۔ تقریباً چار درجن اشیاء جو اس وقت17فیصد سے کم جی ایس ٹی کی شرح سے مشروط ہیں پر بھی31 ارب روپے کی آمدنی کے لیے معیاری 17فیصد سیلز ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔

ان میں برانڈڈ پیکیجنگ میں فروخت ہونے والی ڈیری اشیاء ، ریستورانوں اور مٹھائی کی دکانوں میں فروخت ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔ 850سی سی سے اوپر کی مقامی طور پر تیار کی جانے والی کاروں، 1800سی سی سے اوپر کی ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر بھی 17فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔

ان میں سے کچھ اشیاء سیلز ٹیکس کے تابع ہوں گی لیکن حکومت ان پر41ارب روپے کی سبسڈی دے گی۔ بچوں کے دودھ پر 15 ارب روپے، کپاس کے بیج پر 3ارب روپے، بیجوں اور پھلوں پر 3.5 ارب روپے، جانوروں کے کھانے پر 4 ارب روپے اور پولٹری فیڈ پر 2 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دینے پر غور ہو رہا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ مشیر خزانہ کی توثیق کے بعد اب منی بجٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وقت آئیگا جب لوگ روزگار ڈھونڈنے یہاں آئیں گے۔ جمعرات کو اسکردو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور اسٹرٹیجک جگلوٹ اسکردو روڈ کے افتتاح کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پسماندہ اور نظر انداز کیے گئے علاقوں کی ترقی موجودہ حکومت کی ترجیح ہے، غریب کو اُوپر لانے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، جس معاشرے میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو یہ معاشی ناانصافی ہے۔

دریں اثنا بلوچستان سے خوش آیند اطلاع آئی ہے، بتایا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت اور حق دو تحریک کے مظاہرین کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد دھرنا 31 روز بعد ختم ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت ان کے تمام مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر گوادر نے معاہدہ پڑھ کر سنایا۔ صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے تین نوٹیفکیشن قائد حق دو تحریک کے حوالے کیے۔ مولانا کا نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

وزیر اعلیٰ نے اس موقعے پر خطاب میں کہا دھرنے کی شکل میں جو مطالبات کیے گئے وہ جائز تھے، ہمارا واضح موقف تھا سرحدی تجارت کی اجازت ہونی چاہیے، ہم روزگار دے نہیں سکتے تو چھیننا بھی ناجائز ہے، ماہی گیروں کو پیکیج دیں گے تاکہ وہ کشتیاں بنا سکیں۔

انھوں نے گروک پسنی تربت روڈ پر جلد کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا غیر قانونی فشنگ پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے، غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے محکمہ فشزیز اور کمشنر مکران کو ہدایت کر دی ہے۔ قبل ازیں ہدایت الرحمان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ کی گوادر آمد اور مطالبات تسلیم کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

انھوں نے بتایا حکومت نے ہمارے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے جب کہ کئی پر پیشرفت شروع ہوگئی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی ماہی گیری کا تھا، جس پر حکومت نے بلوچستان کے ساحل سے 30 ناٹیکل میل کی حدود میں ٹرالرنگ یعنی بڑی کشتیوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے مچھلی کے شکار پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس سلسلے میں بلوچستان سی فشریز ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔ حکومت غیر قانونی شکار روکنے کے لیے مشترکہ گشتی ٹیمیں بنائے گی، جن میں ماہی گیروں کے نمایندے بھی شامل ہوں گے۔

حکومت نے ایران کے ساتھ مقامی سطح پر اشیاء ضرورت کی تجارت کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگی ہے۔ مزیدبراں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے گوادر میں میڈیا سے گفتگو میں کہا گزشتہ مالی سال کے دوران بلوچستان میں 59ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوئے، ایران سے مزید بجلی خریدنے کے لیے معاہدہ کیا جائے گا،3 ہزار 216 گھروں کے لیے سولر یونٹ دیں گے، اضافی چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں۔

توقع ہے کہ گوادر اور مکران کوسٹ کے عوام کو ریلیف دینے میں بنیادی سہولتوں کی مناسبت سے فیصلے کیے گئے ہیں، صوبہ میں معاشی اقدامات کے نتائج جلد نکلیں گے تو عوام کے احساس محرومی میں بھی کمی آئیگی۔ حکومت اعلانات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں