شنکیاری کا سفر اور حاضری

نصیر احمد  اتوار 19 دسمبر 2021
شنکیاری کا یہ سفر واقعی بڑا پرلطف تھا۔ (فوٹو: فائل)

شنکیاری کا یہ سفر واقعی بڑا پرلطف تھا۔ (فوٹو: فائل)

ہزارہ موٹروے نے شنکیاری کا سفر بہت آسان اور پُرلطف بنادیا ہے۔ اب یہ پانچ، چھ گھنٹوں کے تکلیف دہ سفر سے گھٹ کر 2 گھنٹے کا آرام دہ سفر بن گیا ہے۔ راستے کے بہت سے صبر آزما اور تکلیف دہ مراحل حکومتی کاوشوں اور ترقی پسند ذہن کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں۔ جب ہم مشکلوں سے آسانیوں کا سفر طے کرتے ہیں تو حضرتِ انسان کے صلاحیتوں سے مالامال دماغ کو داد دبے بغیر نہیں رہ سکتے۔

شنکیاری ضلع مانسہرہ کا نسبتاً چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت، سرسبز و شاداب اور دل کو موہ لینے والے حسین نظاروں سے مزین شہر ہے، جسے چاروں طرف سے پہاڑوں نے اپنی بانہوں میں قید کر رکھا ہے۔ جہاں دریائے سرن اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتا ہے وہیں اس کے اطراف میں بہتے اَن گنت چشمے اور جھرنے حساس دل و دماغ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ گویا فطرت کی تمام تر رعنایاں یہاں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ چائے کی پتی کے باغات بھی شنکیاری کی منفرد خصوصیات میں سے ایک ہیں۔ ان باغات کی چائے کی پتی قیمتی زرمبادلہ بچا کر ملکی ضروریات پوری کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان آرمی کی جونیئر کیڈٹ اکیڈمی بھی شنکیاری کا ایک اعزاز ہے۔

اس بار میں اکیلا ہی عازمِ سفر ہوا اور اپنی ہمسفری کےلیے ’’ڈیل کارنیگی‘‘ کی کتاب ’’مانیں نہ مانیں’‘‘ ساتھ رکھ لی تاکہ حسین نظاروں کے سفر میں اہلِ علم و دانش کی سنگت سے بھی کچھ فائدہ اٹھایا جاسکے۔

جب میں ویگن اسٹینڈ پر پہنچا تو گاڑی کی صرف فرنٹ سیٹ ہی خالی تھی۔ ٹکٹ خرید کر فرنٹ سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گاڑی موٹر وے پر فراٹے بھرنے لگی۔ اس کا رخ لاہور کی طرف تھا مگر کچھ ہی دیر میں موٹر وے نے سانپ کی کنڈلی کی طرح بل کھا کر گویا ہمیں پشاور موٹر وے پر پھینک دیا۔ ابھی بھی دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید پشاور کی طرف رواں دواں ہیں، پھر دفعتاً موٹر وے نے ایک اور بل کھایا اور گاڑی ہزارہ موٹر وے پر حسین نظاروں کے درمیان منزلِ مقصود کی طرف بڑھتی چلی جارہی تھی۔

ہزارہ موٹروے کے خوبصورت نظارے آنکھوں کے سامنے سے قطار در قطار گزرتے چلے جارہے تھے کہ گاڑی نے ایبٹ آباد ٹنل کے دروازے پر دستک دی اور ساتھ ہی میں نے ویڈیو بنانے کےلیے موبائل کیمرہ گاڑی کی فرنٹ اسکرین کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہزارہ موٹر وے پر چھ انتہائی خوبصورت ٹنلز بنائی گئی ہیں، جو اپنی مثال آپ ہیں۔ شنکیاری تک تین ٹنلز میں سے میرا گزر ہوا۔ ایبٹ آباد ٹنل-1 کی لمبائی تقریباً پونے دو کلومیٹر ہے جبکہ ایبٹ آباد ٹنل-2 کی لمبائی چار سو میٹر تک اور اس کے بعد مانسہرہ ٹنل آتی ہے، جس کی لمبائی لگ بھگ ڈھائی کلومیٹر ہے۔

ہزارہ موٹروے اَن گنت خوبصورت نظاروں کے بیچوں بیچ بل کھاتی، گھاٹیوں میں تیرتی اور پہاڑوں کے سینے چیرتے چلی جاتی ہے۔ کبھی حویلیاں تو کبھی ہری پور لینڈ اسکیپ کی مانند ایک طرف بکھرے نظر آتے ہیں تو کبھی ایبٹ آباد کی شملہ پہاڑی دعوتِ نظارہ پیش کرتی نظر آتی ہے۔

قریباً دو گھنٹے پندرہ منٹ میں شنکیاری پہنچ گیا۔ شنکیاری اڈہ شاہراہِ ریشم پر ہی ہے اور اس کے قریب سے ہی دریائے سرن گزرتا ہے جو پہاڑوں اور وادیوں کے سحر انگیز نظاروں میں بل کھاتا، شور مچاتا اپنی ہستی کو سمندر کی نذر کرنے کےلیے منزل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس خوبصورت وادی کا ایک خوبصورت شہر بٹل ہے جو شنکیاری سے تھوڑا آگے شاہراہِ قراقرم پر ہی واقع ہے۔ بٹل پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک خوبصورت شہر ہے۔ بٹل سے تھوڑا آگے اس وادی کا ایک اور دلکش، صحت افزا مقام چھترپلین آتا ہے جہاں پر گلگت کی طرف جانے والے سیاح رک کر اپنی آنکھوں کو خوبصورت نظاوں سے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ سیاحوں کی دلچسپی کے مدنظر چھترپلین میں ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز بھی بنائے جارہے ہیں۔

شنکیاری کا سفر کرنے والا کوئی بھی شخص جو پہلا کام کرتا ہے وہ ہے شنکیاری کے مشہور کباب کھانا۔ شنکیاری کے چھوٹے سے شہر میں جابجا کبابوں کی بیسیوں دکانیں نظر آتی ہیں، جہاں منوں قیمہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے پیٹ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ میں نے بھی وہاں پہنچتے ہی کبابوں پر ہاتھ صاف کیے اور تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کی واک اور ہائیک کے بعد نقشبدی سلسلہ کے معروف بزرگ سید نادر حسین شاہ الکاظمیؒ کے مزارِ اقدس پر پہنچ گیا۔ مزار پر حاضری دےکر دعا کی۔ دربار پر زائرین کے وسیع لنگر کا انتظام ہے اور غریب و حاجت مند اہل علاقہ کےلیے راشن اور صحت یا کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کےلیے ایمبولینس سروس بھی فلاح عامہ کے جذبے کے تحت 24 گھنٹے موجود ہوتی ہے۔

حاضری کے بعد شنکیاری کی مشرقی سمت ایک چھوٹی سی پہاڑی کو منزل بنا کر چل پڑا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے ندی نالوں اور چشموں کا علاقہ ہے۔ یہ واک بھی ایک پہاڑی ندی کے ساتھ ساتھ تھی مگر کچھ ہی دیر بعد مجھے اس ندی کے نغموں سے الگ ہونا پڑا، کیونکہ میری منزل پہاڑی کی چوٹی تھی۔ پہاڑی پر چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں جو کسی فوجی حوالدار کی طرح رائٹ لیفٹ کراتی ہوئی مجھے منزل سے قریب تر کرتی چلی جارہی تھیں۔ لگ بھگ پچیس منٹ کی ہائیک کے بعد میں اس پہاڑی کی چوٹی پر تھا۔ چوٹی پر گویا خوبصورت نظارے میرے منتظر تھے۔ یہ چوٹی خود ایک منفرد منظر پیش کر رہی تھی جس پر ایک طرف کھیت تھے اور دوسرے کنارے پر آسمان کو چھوتے پائن کے درخت سیاحوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے تھے۔ ایک سمت غروبِ آفتاب کا خوبصورت منظر، شفق پر پھیلی لالی تو دوسری طرف چھوٹی سی وادی میں پھیلا خوبصورت گاؤں اور اس کے ساتھ سے بلند ہوتا انتہائی خوبصورت اور سرسبز و شاداب پہاڑوں کا سلسلہ۔

کچھ دیر ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد آہستہ آہستہ پہاڑی سے نیچے اترنا شروع کیا۔ آڑھی ترچھی پگڈنڈیوں پر پڑے پائن کے سوکھے پتے شدید پھسلن کا باعث بنتے ہیں۔ بڑی احتیاط سے اترنے کے باوجود ایک دو جگہوں پر دس پندرہ فٹ کا فاصلہ خودبخود ہی طے ہوگیا اور ہاتھوں نے گویا بریکوں کا کام کیا۔ کچھ ہی دیر میں اپنے پڑاؤ پر واپس پہنچ گیا۔ رات گزارنے کے بعد اگلی صبح واپس اسلام آباد لوٹ آیا۔

شنکیاری کا یہ سفر واقعی بڑا پرلطف تھا۔ اگر وقت کے دامن میں کچھ گنجائش ہوتی تو وادی کی ساری جگہوں کا نظارہ کرلیتا، مگر غمِ روزگار نے اس مرتبہ ٹھہرنے نہ دیا۔ انشاء اللہ اگلے وزٹ کو مزید شاندار اور پرلطف بنانے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نصیر احمد

نصیر احمد

بلاگر ایم بی اے (فنانس) ہیں اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اکاؤنٹنٹ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ تاریخ، فلسفہ، نفسیات، کامیاب لوگوں کی سوانح حیات، تعلیم و تعلم اور مینجمنٹ کے موضوعات پر کتب کے مطالعے کا شوق رکھتے ہیں جبکہ تعلیم اور شعوری موضوعات پر کام کرنے اور لکھنے کا جذبہ ان میں موجزن ہے۔ ان کی فیس بک آئی ڈی naeer.ahmad.904108 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔