غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں

سرور منیر راؤ  اتوار 19 دسمبر 2021

پچاس سال پہلے 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ایک ایسا المناک سانحہ اور قومی المیہ ہے کہ جس کے تذکرے سے ہی تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔16 اگست 1947 کو عالمی نقشے پر جب پاکستان ابھرا تو وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھا لیکن 24سال بعد اس کا ایک حصہ جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا بنگلہ دیش بن گیا۔

50سال گزرنے کے باوجود ہم آج تک اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ مملکت پاکستان کے دو لخت ہونے کی اصل اور مرکزی وجہ کیا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ ایسے واقعات کسی ایک وجہ سے رونما نہیں ہوتے، اس کے پس منظر میں تواتر سے ایسے عوامل ہوتے ہیں جو اس طرح کے المناک منظر نامے کا حتمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کبھی ہم ایک ملک تھے اب مشرقی پاکستان ہم سے جد ا ہو کر ایک نیا ملک بن گیا ہے۔یہ کیسے ہوا؟ اب تک ا ن حقائق سے پردہ نہ اٹھایا گیا۔ 1971 میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو یحییٰ خان صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر، وزیر اعظم اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق، ضیاء الحق کے بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں۔درمیان میں مختصر عرصے کے لیے نواز شریف بھی آئے۔پرویز مشرف کے بعد پھر پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسر اقتدار رہی۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اس وقت تک عوام سے پوشیدہ رہی جب تک انڈیا کے اخبارات نے اس کے کچھ مندرجات کو اخفاء کرنا شروع کر دیا ۔صدر مشرف کو مجبوراً اس کے کچھ حصے پبلک کرنا پڑے۔ اس رپورٹ کے جو حصے پبلک کیے گئے۔

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر منتخبہ افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے اور وہ کسی بھی طرح قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے ۔ سب مثالی سزا کے حقدار ہیں۔لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم حقائق سے آنکھیں چرارہے ہیں۔

سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی عوامل سے جب تک پاکستان کا عام شہری با خبر نہ ہو گا اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کر سکیں گے۔جس طرح صحیح تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں اسی طرح سیاسی غلطیوں کا ادراک کیے بغیر اصلاح کیسے ممکن ہے؟ سقوط ڈھاکا ایک سوچی سمجھی بین الاقومی سازش تھی یا ہماری حکمران اشرافیہ کی من مانی اور استحصالی پالیسوں کا منطقی انجام، اس کا جواب حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں دے دیا گیا لیکن عام آدمی کی رسائی سے یہ رپورٹ دور ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد(جو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں) نے ان افراد کے خلاف نہ صرف مقدمات قائم کیے بلکہ ان کو پھانسی بھی دی جو 1971 میں تحریک بنگلہ دیش کے خلاف اور پاکستان کے حامی تھے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جن کا ملک دولخت ہو گیا۔ہم ان کرداروں پر مقدمات تو چلانا درکنار ان کے جرائم سے بھی قوم کوبے خبر رکھے ہوئے ہیں۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے بڑے واضح انداز میں ان صاحب اختیار لوگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کھلی عدالت میں مقدمہ یا کورٹ مارشل کیا جانا ضروری ہے۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پوری طرح آشکار کیا جائے۔ اسے تعلیمی نصاف میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کے وکلاء اور سول سوسائٹی اس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان توڑنے والے کرداروں کے خلاف مقدمات عدالت میں لے کر جائیں ۔سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لے کر اس رپورٹ کو عام کرنے کا حکم دے۔قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ حب الوطن ممبران پارلیمنٹ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔

جب تک ہم اپنی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے کے اسباب و عواقب اور حالات سے بے خبر رہیں گے یہاں عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تاریخ پاکستان کے اس تلخ باب کے حقائق کو اس طرح سامنے لائیں کہ آیندہ آنے والی نسلیں اور حکومتیں ان غلطیوں کو نہ دوہرائیں ۔ یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتیں اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی۔

قوموں کی تاریخ میں آزمائشوں اور چیلنجز کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ تاریخ کا دھارا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔