سقوط ڈھاکا

جاوید قاضی  اتوار 19 دسمبر 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سنا ہے ہو بھی چکے پچاس سال، سقوط ڈھاکا کو۔ چلوکچھ دیے تو جلائیں اس یاد ماضی پر،کچھ گلاب کے پھولوں کی پتیاں ہی بچھا آئیں۔کچھ بھیگی آنکھوں سے اس شام ویراں پر، ایک چھ سال کے بچے کی حیثیت سے ان کانوں سے ریڈیو پر جنرل یحییٰ خان کی وہ تقریر میں نے خود سنی تھی جو، ’’ عزیز ہم وطنوں‘‘ سے شروع ہوئی تھی، اس سے پہلے قومی ترانہ بجا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اس نے تقریر میں مشرقی پاکستان والوں کو اپنا بھائی کہا تھا ، جب جنرل نیازی ڈھاکا کے پلٹن میدان میں سرنڈر دستاویز پر دستخط کر رہے تھے ، اس دستاویز پر جس سے مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن رہا تھا، مغربی پاکستان کے اقتدار پر قابض حکمران اشرافیہ کے ارکان کہتے تھے بنگالی بونے ہیں کہ جیسے مفلوج ہوں ،کوئی اپاہج ہوں۔ ایسا بیانیہ ترتیب دیا کہ نفرتیں امڈ پڑتی تھیں ، مگر ہم پانچ بھائی تھے، پانچ تہذیبیں، تاریخ و تمدن تھے۔ 23 مارچ 1940 کی قرارداد نے ہمیں جوڑا تھا۔ وہ قرارداد جس کے بعد بھی کسی کو وہم وگمان میں نہیں تھا کہ پاکستان بنے گا۔

عائشہ جلال بھی کہتی ہیں کہ پاکستان بننا ہی نہیں تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد بھی کہتے ہیں کہ پاکستان، جناح نے نہیں بنایا، نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل کی ہٹ دھرمی نے بنایا۔ بنگلہ دیش بھی شیخ مجیب نے نہیں بنایا، ایوب خان، یحییٰ خان اور مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو نے بنایا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خود نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی کا کردار مشکوک تھا ، اس جماعت کی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنی والی قیادت نے کھل کر بنگالیوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت نہیں کی۔ میں جب اینکر تھا ایک طویل انٹرویو خیر بخش مری کا کیا تھا۔

میں نے ان کو کہا کہ بچپن سے یہ آوازیں میرے کانوں میں پڑتی تھیں کہ نیپ والوں نے بنگالیوں کا ساتھ نہیں دیا ، میں نے یہ باتیں ابا سے سنی تھیں۔ یہ اہل دل خیر بخش مری ہی اعتراف کرسکتا ہے۔ کہنے لگے ’’ یہ بات صحیح ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم اس وقت نیپ کے بڑے لیڈر نہیں تھے ، ہم نے اپنا اختلاف پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں رکھا۔ پھر نیپ کے ساتھ کیا ہوا، جس نے نیپ کے ساتھ جو حشر کیا اس کے ساتھ کیا ہوا ، بے نظیر کے ساتھ کیا ہوا اور نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا۔

7 مارچ 1971 کی وہ سہمی شام ،دھان منڈی شیخ مجیب سے میرے والد کی آخری ملاقات ، ڈھاکا ایئرپورٹ سے اڑتا وہ آخری جہاز جس میں میر غوث بخش بزنجو ، ڈاکٹر اعزاز نذیر نکلے تھے۔ میرے والد انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اپنے حریف حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کی ٹکٹ میں جیتنے کے بعد، فوراً ڈھاکا چلے گئے تھے، کہ ٹیلی گرام کرکے ان کو شیخ مجیب نے یہی کہا کہ وہ جلدی ڈھاکا پہنچیں۔

کسی طرح لمحہ بہ لمحہ صورتحال بدلتی تھی اب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں وہ سب کچھ۔ یہ سوانح حیات ڈاکٹر جعفر احمد کی نگرانی میں اردو میں جلد آنے والی ہے۔ سب کے سب ڈھاکا میں تھے ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، بھٹو، یحییٰ۔ اسمبلی کا اجلاس ہے کہ ہو نہ پائے، تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی۔ اجلاس تھا کہ نہیں ہورہا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ شیخ مجیب یا عوامی لیگ اتنی بھاری اکثریت سے جیت پائے گی مگر الیکشن سے چند مہینے پہلے وہاں سمندری طوفان آیا، وفاقی حکومت کہیں یا مغربی پاکستان کہیں یہاں سے کوئی مدد وہاں وقت پر پہنچ نہیں سکی۔

عوامی لیگ نے خوب اس کا رونا رویا، کیوں نہ روتے، سیاست جو کرتے تھے۔ اپنے سب سے بڑی مخالف پارٹی جماعت اسلامی کو شکست جو دینی تھی جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی چہرہ تھی، بریگیڈیئر صدیق سالک لکھتے ہیں کہ جنرل یحییٰ خان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔ 1970 کے انتخابات پہلے انتخابات تھے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے۔

یہ غالباً پہلی جولائی 1970 تھی نوابشاہ میں جلسے سے خطاب کیا شیخ مجیب نے۔ ہمارے والد نے اپنے سب سے چھوٹے بچوں بمع میں اور میری بہن کے مجیب کے ساتھ پنڈال میں بٹھایا ، میری عمر سات سال کی تھا۔ مگر مجھے اس کی تقریر کا وہ ٹکڑا اب بھی یاد ہے ’’ چٹاگانگ کا کمشنر پوسٹ کارڈ پر سیالکوٹ میں اپنے احباب کو لکھتا ہے کہ یہاں جھلی چلانے کے لیے ایک اسامی خالی ہے، جلدی سے آجائو۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایک بنگالی میں اتنی بھی اہلیت نہیں کہ وہ جھلی چلا سکے۔‘‘ شیخ مجیب بنگالی قوم پرست تھے ۔ اس کے چھ نکاتی پروگرام ملک توڑنے کے لیے نہیں تھا اور وہ آئین بنانے جارہے تھے۔ دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ اگر متحدہ پاکستان کا دارالحکومت ڈھاکا چلا جاتا توکیا غلط تھا، یہ بات بار بار میرے والد نے حکمرانوں کو باورکرائی۔

بنگلہ دیش تو پاکستان بننے سے پہلے اپنی چند اینٹیں بنیادوں میں ڈال چکا تھا ، جب مسلم لیگ کے اندر دو مضبوط دھڑے پاکستان بننے سے پہلے بن چکے تھے۔ ایک تھا یو پی کی مسلم لیگ کا گروپ اور دوسرا تھا شہید سہروردی کا بنگالی گروپ، سہروردی متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔

یو پی کی مسلم لیگ یا آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت سوائے جناح کے یو پی وغیرہ سے تھی۔ مجیب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ سر ریڈ کلف تو اس بات پر آمادہ ہوگیا تھا کہ کلکتہ پاکستان کو دیتے ہیں اور لاہور ہندوستان کو مگر اس وقت کی بااثر مسلم لیگی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ کلکتہ پاکستان کو ملے، کیونکہ پھر اس شہرکو ہی دارالحکومت بنانا پڑتا اور مسلم لیگ کا بنگالی گروپ ، مسلم لیگ کی مرکزی قیادت پر حاوی ہوجاتا۔ کراچی کی کمزوری یہ تھی کہ سندھ کی مسلم لیگ کمزور تھی اور پھر سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ اقتدار میں شراکت کا مرحلہ آیا تو جی ایم سید روٹھ کر بیٹھ گئے۔ ہندو کراچی سے جانے کو تیار نہ تھے، زبردستی دنگا فساد کرائے گئے اور ان کی ملکیتوں پے قبضے کیے گئے۔

شیخ مجیب لکھتے ہیں’’ جناح کافی ضعیف ہوگئے تھے ‘‘ جب وہ ڈھاکا آئے تھے اور اس ہال میں میں بھی موجود تھا جب جناح نے خطاب کرکے یہ کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی‘‘۔ بنگالی اکثریت میں تھے لیکن قومی زبان کے اہم اور حساس ایشو پر بنگالی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ون یونٹ نظام قائم کرکے ان کی پارلیمنٹ میں اکثریت غائب کردی گئی ، اب آپ خود بتائیں کہ بنگلہ دیش مجیب نے بنایا یا مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے؟ میرے والد نے بھی حمود الرحمان کمیشن کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا،کہ وہ آخر وقت تک دو مہینوں سے وہیں تھے اور کس طرح حالات بدلتے گئے ، وہ ساری خط کتابت جو جسٹس حمود الرحمان نے ابا سے کی وہ عوامی لیگ کا اثاثہ تھی جو بنگلہ بندھو میوزیم دھان منڈی کے اس گھر میں موجود ہیں۔

آج بنگلہ دیش، ویتنام کی طرح دنیا میں ان دو قوموں میں شمار ہوتا ہے جن کی معیشت تیزی سے ابھر رہی ہے ، ہر سال تین چار ارب ڈالر زر مبادلہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آٹھ فیصد پر ان کی مجموعی پیداوارکی شرح نمو ہے۔ ان کے چوراسی ٹکوں کے برابر ہے ایک ڈالر، ان کی فی کس آمدنی پاکستان اور ہندوستان سے آگے ہے۔ وہ آیندہ دس سال اور ترقی کرتا نظر آرہا ہے اور ان کے پاس اسی ارب ڈالر کے لگ بھگ زر مبادلہ ہوگا۔ انھوں نے ریاست اور مذہب کو الگ کرنے کے لیے سیکیولر ازم واپس اپنے آئین میں بحال کردیا۔ اب بتائے کوئی کہ کیا بنگلہ دیش جناح کی گیارہ اگست کی تقریر پر یقین رکھتا ہے یا ہم۔

شیخ مجیب کی 7 مارچ 1971 والی تقریر اس میں اس نے صرف جئے بنگلہ نہیں کہا تھا بلکہ اس نے ’’جئے بنگلا ، جئے پاکستان‘‘ کہا تھا۔ سقوط ڈھاکا تاریخ کا وہ سیاہ ورق ہے جسے ہمیں روز یادکرنا چاہیے اور ایسی غلطی دہرانے سے گریزکرنا چاہیے۔ یہ ملک وفاق ہے ، اسے وفاق ہی رہنے دو۔ یہ ملک فلاحی ریاست ہے، اسے فلاحی ریاست ہی رہنے دیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔