افغانستان، متوازن پالیسی کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 20 دسمبر 2021
افغان طالبان کی حکومت کا دفاع بھی اسی صورت کیا جاسکتا ہے جب وہ خود عالمی برادری کے خدشات و تحفظات دور کریں۔ (فوٹو: فائل)

افغان طالبان کی حکومت کا دفاع بھی اسی صورت کیا جاسکتا ہے جب وہ خود عالمی برادری کے خدشات و تحفظات دور کریں۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغان معاملے پر مشکل صورت حال سے دوچار ہے، افغان بحران کی صورت میں شدت پسند تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ امریکا کو اب افغان عوام کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔

غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ، دنیا نے افغانستان پر توجہ نہ دی تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، افغان عوام امداد کے منتظر ہیں۔

دوسری جانب امریکی سینیٹ نے افغان جنگ کی مکمل جانچ پڑتال سے متعلق آزاد کمیشن کے قیام کی تشکیل کا بل منظور کرلیا ہے ، جب کہ بل کے پرانے موقف میں شامل پاکستان کے کردار کی تحقیقات سے متعلق شق کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔

وزیراعظم عمران خان افغانستان کے حوالے سے خلوص نیت اورانتہائی مدبرانہ انداز سے اپنے خیالات کا اظہارغیرملکی میڈیا پر تسلسل سے کرتے آرہے ہیں ، درحقیقت ایک طرف افغان عوام بدترین بحرانی صورتحال سے دوچار ہیں تو دوسری طرف عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، بلاشبہ ان کے مفاد میں یہی ہے کہ افغانستان غیریقینی اور عدم استحکام کا شکار رہے۔

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستان بین الاقوامی برادری کو مسلسل یاد کراتا چلا آرہا ہے کہ طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے لہٰذا اسے دیوار سے لگانے کے بجائے تسلیم کیاجائے، افغانستان کے عوام کو تنہا چھوڑنے سے افغان مسئلہ مزید گھمبیر ہوگا جس کا براہ راست نقصان افغان عوام کو ہوگا جو پہلے ہی دہائیوں کی خانہ جنگی کی بدولت تباہی کے دہانے پرہیں۔

طالبان سے رابطے بحال کرکے دنیا انھیں ان باتوں اور مطالبات کوماننے پرمجبورکرسکتی ہے جس کا تعلق انسانی حقوق اور خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہے، اگر امریکا حالت جنگ میں مصروف طالبان سے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر مذاکرات کرسکتا ہے تو خطے اور افغان عوام کے مجموعی مفاد میں برسراقتدار طالبان حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ آج پاک افغان سرحدکی صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔

جہاں ایک ظہورپذیر ہوتا ہوا انسانی المیہ دیکھا سکتا ہے،جوافغان دسترس رکھتے تھے وہ تو ملک سے نکل گئے اور مزید بھی چلے جائیں گے، مگر ایک عام اور غریب افغانی کیا کرے، فی الحال تو سرحد بند ہونے کی وجہ سے افغان لوگ سرحد سے اس پار نہیں آپا رہے مگرجب کھانے کوکچھ نہیںملے گا توپھر لوگ کسی چیز کی پرواہ نہیں کریںگے۔

ان وجوہات کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر دنیا نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور بردباری، دانش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو اس دفعہ مہاجرین کا ایک سیلاب امڈآئے گا جس کی منزل پاکستان اور کسی حد تک ایران ہوگی۔ اس ساری صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہمیشہ کی طرح پاکستان ہی ہوگا۔ اسی وجہ سے پاکستان مسلسل دنیا کو اس خطرے اور اس کے اثرات سے باورکرانے کی کوشش کررہاہے، ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے جیسے الزامات کا سامنا کرنے والے افغان طالبان اب خود دہشت گرد تنظیم کے حملوں کاشکار ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان کی صورت حال انتہائی نازک موڑ پر آن پہنچی ہے ، پاکستان ہرممکن طور پر افغانوں کی مدد پر کمربستہ نظر آرہا ہے ، لیکن اس حقیقت کو بھی سامنے رکھیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ اور پالیسی سازوں کو افغانستان کے معاملات میں ایک حد سے آگے نہیں جانا چاہیے ، ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے معاشی وا سٹرٹیجک مفادات کو سامنے رکھنا چاہیے ، کیونکہ ہمارے اپنے داخلی اور خارجی مسائل بہت پیچیدہ ہوگئے ہیں۔

ان سے نبرد آزما ہونا حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے ، پاکستان کے حکمرانوں کی دنیا سے یہ اپیل کہ وہ افغانستان میں انسانی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو مالی مدد فراہم کرے، درست مطالبہ ہے ، لیکن افغانستان کے عوام کی تمناؤں، آرزؤں پر پورا اترنا افغان طالبان کی ذمے داری ہے کیونکہ اقتدار ان کے پاس ہے۔

افغان طالبان حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کی جان ومال ، عزت و آبرو کا تحفظ کرے ، افغانستان اور اس کے عوام مفتوح نہیں ہیں کہ ان کے ملک پر حکمرانی کرنے والوں پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔افغان طالبان کے پالیسی سازوں کو غور کرنا چاہیے کہ عالمی برادری ان پر اعتماد کیوں نہیں کرتی؟ افغانستان کے برسراقتدار طالبان آخر خود دنیا سے براہ راست روابط استوار کرکے اپنے ملک اور عوام کے لیے مدد طلب کیوں نہیں کرتے؟ پاکستان یا ایک دو اور ملک افغانستان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔

افغان طالبان کی حکومت کا دفاع بھی اسی صورت کیا جاسکتا ہے جب وہ خود عالمی برادری کے خدشات و تحفظات دور کریں، اس حقیقت کا ادراک ہمارے پالیسی سازوں کو یقیناً ہوگا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی پالیسی اپنائی جائے تو صورتحال میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا بالخصوص اور مغربی دنیا بالعموم ہوش کے ناخن لے اور مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے طالبان کی افغان حکومت کو بات چیت کرتے ہوئے مسئلے کا دیرپا حل نکالے تاکہ ایک بہت بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے جو اب صرف ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ افغان طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری ایسے اقدامات کریں جس سے دنیا کی ان کے بارے میں رائے تبدیل ہوسکے۔

ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی افغان پالیسی مرتب کی جائے جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہو اور جس پر سب کا اتفاق ہو جب تک ہم ملک کے اندر اتفاق پیدا نہیں کریںگے اس وقت دنیا بھی ہماری بات نہیں سنے گی، اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اس حوالے سے صائب اور درست فیصلہ کرینگے تاکہ کسی بھی سنگین صورتحال سے بچا جا سکے۔

دنیا کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ معاشی ناکہ بندیوں اور پابندیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس سے انتہاپسندی جیسے رجحانات فروغ پاتے ہیں جس کا نقصان بھی سب کو ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔