کراچی میں دھماکا، قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع

ایڈیٹوریل  پير 20 دسمبر 2021
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے المناک واقعات پہلے بھی کراچی میں رونما ہوچکے ہیں۔ فوٹو:پی پی آئی

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے المناک واقعات پہلے بھی کراچی میں رونما ہوچکے ہیں۔ فوٹو:پی پی آئی

شہر قائد کے علاقے شیرشاہ پراچہ چوک پرسیوریج کے نالے میں گیس جمع ہونے کے باعث زوردار دھماکے کے نتیجے میں سترہ افراد جاں بحق جب کہ متعدد شدید زخمی ہوگئے ، نجی بینک کے علاوہ دیگر قریبی عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ،کئی زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے چند کی حالت انتہائی تشویشناک ہے ۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے المناک واقعات پہلے بھی کراچی میں رونما ہوچکے ہیں، نالے پر تجاوزات بھی حادثات کی بڑی وجہ بنتی ہیں ۔شہر قائد کو اس حال تک پہنچانے کا اصل ذمے دار کون ہے؟ ہم سارا الزام نام نہاد بلدیاتی اداروں پر ڈالیں یا تمام اختیارات کی حامل سندھ حکومت کو ٹھہرائیں یا یہاں بسنے والے ان تمام شہریوں کو برا کہیں۔

جنھوں نے اسے کبھی اپنا شہر نہیں سمجھا۔ کراچی کی بربادی کے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں کسی نہ کسی صورت میں شہر پر اثر انداز ہونے کا سیاسی، سماجی اور انتظامی اختیار تھا۔شہری ترقیاتی اداروں کے اہلکاروں اور ٹھیکیداروں اور بلڈرز کی مشترکہ بدعنوانیوں، لالچ رشوت خوریوں کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار خلاف ضابطہ یا غیر قانونی تعمیرات پر خاموشی اختیار کرتے آئے ہیں۔

ایسی عمارتوں کی رسمی توڑ پھوڑ بھی ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے ٹوٹنے والی عمارتیں دوبارہ ویسے ہی بن بھی جاتی ہیں اور ان میں لوگ بھی آباد ہو جاتے ہیں جس کے بعد ان عمارتوں کو مسمار کرنا انسانی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

آج یہ حال ہے کہ جن علاقوں میں حد سے حد تین منزلہ یا گراؤنڈ فلور پر دو منزلیں بنانے کی اجازت تھی وہاں اب خوبصورت مکانوں کی جگہ جمالیاتی ذوق سے عاری چار اور پانچ منزلہ بدنما دڑبے نما عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں جن کی ہر منزل پر کم از کم دو پورشن بنا کر فلیٹوں کی طرح علیحدہ علیحدہ لوگوں کو فروخت کر دیے گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گلیوں میں پارکنگ کی جگہ نہیں رہی ہے، پانی کی قلت ہو گئی ہے اور گٹر ابلنے لگے ہیں جس کی وجہ سے سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں۔

ملک کے تمام چھوٹے ،بڑے شہروں اور دیہات میں تجاوزات کی بھرمار صوبوں پر محیط ایسا مسئلہ ہے جس پر کوئی حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود قابو نہیںپاسکی، اس لیے کہ تجاوزات کے ساتھ دیہات اور شہروں کے بااثر افراد کا مفاد وابستہ ہوتا ہے اور سرکاری محکمہ ان کی ناجائز تعمیرات کا نوٹس نہیں لیتا۔ رہائشی علاقے بازاروں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔

تجاوزات نے فٹ پاتھ اور پارکنگ کی جگہ تک نگل لی ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس برائی کا انسداد ممکن نہیں رہا ۔ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کراچی کے رہائشی اور تجارتی علاقوں میں جو ابتری پھیلی ہے اس پر کیسے قابو پایا جائے اور کیسے کراچی کو دوبارہ ایک جدید اور منظم شہر میں تبدیل کیا جائے تاکہ ایسے المناک سانحات سے مستقبل میں بچا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔