سندھ کا نیا بلدیاتی نظام سیاسی کشیدگی کا باعث بن گیا

اجمل ستار ملک / حسن عباس / عامر خان  پير 20 دسمبر 2021
نئے نظام کے ذریعے صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو پہلے سے زیادہ با اختیار بنایا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

نئے نظام کے ذریعے صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو پہلے سے زیادہ با اختیار بنایا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

سندھ اسمبلی سے  نئے بلدیاتی نظام کی منظوری کے بعد پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ سندھ حکومت اس بل کی منظوری کے بعد تنہا ہوچکی ہے اور اسے اس معاملے پر کوئی پذیرائی نہیں ملی۔

ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی، جماعت اسلامی اور جے ڈی اے اس بل کو یکسر مسترد کرچکے ہیں اور ان کا موقف یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے عددی اکثریت کی بنیاد پر یہ بل پاس کراویا اور بلدیاتی نمائندؤں کو ان کے تمام اختیارات سے محروم کرکے ہر ختیاراپنی دسترس میں کرلیا ہے جو تعصب پر مبنی ہے اور اس کے نتیجے میں شہری علاقوں کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا جس کے بہت برے نتائج نکلیں گے جبکہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت اور خاص طورپر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کی کابینہ کے ارکان بل کے خلاف اپوزیشن کے مظاہروں اور احتجاج کو سندھ میں لسانی فسادات کی سازش قرار دے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ سندھ حکومت نے نئے بلدیاتی نظام میں اپوزیشن کے کئی مطالبات کو بل کا حصہ بنایا ہے اور اس نظام کے ذریعے بلدیاتی نمائندؤں کو پہلے سے زیادہ اختیارات ملیں گے صرف تعلیم، صحت کے نظام کو صوبائی حکومت نے اپنے کنٹرول میں اس لیے لیا ہے کیونکہ اسپتالوں، اسکول اور کالجز کا نظام بلدیاتی حکومتیں چلانے میں ناکام ہوچکی تھیں ۔

آئندہ سال سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا سال ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی بقا کے لیے اسے خاص اہمیت حاصل ہے موجودہ تلخی کہاں تک پہنچے گی اور یہ انتخابات کیا واقعی سب کو قابل قبول ہوں گے اس حوالے سے صوبے کی اسٹیک ہولڈر جماعتوں کے رہنماؤں نے’’ ایکسپریس فورم‘‘ نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قارئین کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں۔

 سعید غنی

(وزیر اطلاعات سندھ و صدر پیپلزپارٹیکراچی ڈویژن)

لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر احتجاج اور تنقیدکرنا اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے لیکن اس کی آڑ میں شہر اور صوبے میں لسانیت پھیلانا اور خون خرابہ کرنے کی سازش کو پیپلز پارٹی اور اس شہرکے عوام کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ اپوزیشن نے نیا بلدیاتی قانون پڑھا ہی نہیں ہے اگر کسی نے پڑھا ہے تو پھر اس کو سمجھا نہیں ، اپوزیشن اس ایکٹ کے خلاف عوام میں گمراہی پھیلا رہی ہے  جو جھوٹ پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔ ہم نے تمام اختیارات کو نہ صرف نچلی سطح تک منتقل کیا ہے بلکہ2001 اور2013 کے ایکٹ کے مقابلے میں یونین کونسل ، یونین کمیٹیوں اور ٹاؤنز کو مالی اور انتظامی سمیت سندھ کے10 سے زائد صوبائی محکموں میں اس کے کردار کو یقینی بنایا ہے، سندھ کے نئے بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کو واضح اختیارات دیے گئے ہیں۔

اب میئر کراچی  واٹر بورڈ کا شریک چیئرمین ہوگا۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا بھی میئر کو چیئرمین بنایا گیا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس جو پہلے محکمہ ایکسائز جمع کرتاتھا اب اس  ٹیکس کے جمع کرنے کا اختیار بھی یونین کونسل کو دیا گیا ہے۔

ہم نے 2021 کے بلدیاتی ایکٹ میں 2013 کی نسبت زیادہ نچلی سطح پر منتقل کیا ہے۔26 نومبر کو جب یہ بلدیاتی بل ایوان میں پیش کیا گیا ، اس وقت بھی اپوزیشن سے اس پر تجاویز اور ترامیم مانگی تھیں اور انھوں نے ترامیم ایوان میں جمع بھی کرائیں لیکن افسوس کہ جب یہ بل منظور ہو رہا تھا تو اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی اور اپنی ترامیم پر کوئی زور نہیں دیا جب یہ بل منظور ہوگیا توگورنر سندھ نے اس پر اعتراضات لگائے اور تحفظات کے ساتھ مذکورہ بلدیاتی بل کو واپس بھیج دیا، ہم نے اس ایکٹ کی دوبارہ تیاری اور بعد ازاں گورنر سندھ کی جانب سے اس پر تحفظات اور جو تجاویز دی گئیں  اس کو نئے بلدیاتی ترمیمی بل میں بھی شامل کر دیا اور پھر اسے منظور کیا گیا۔ سندھ کے نئے بلدیاتی ایکٹ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے اس میں مزید ترامیم کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ ہم اپوزیشن کے احتجاج سے پریشان ہیں ہم ان کے احتجاج سے پریشان اس لیے ہیں کہ وہ اس قانون کی آڑ میں کراچی میں لسانی فسادات پھیلانے کی سازش کررہے ہیں۔

ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی ، ان کی سیاسی دکان اب چمکنے والی نہیں۔  بعض جماعتیں خصوصا ایم کیو ایم اس قانون کی آڑ میں شہر میں لسانی فسادات کرانے کی کوشش کر رہی ہے ، جس کو ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ اپوزیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ بلدیاتی ایکٹ پر کوئی تجاویز یا سفارشات دینا چاہیں تو حکومت سندھ کے دروازے کھلے ہیں ۔ ہماری کوشش ہے کہ جلد بلدیاتی انتخابات کرائیں۔ وفاق بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت پر اپناکوئی فیصلہ مسلط نہیں کرسکتا۔

سید امین الحق

(وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی مرکزی رہنما ایم کیو ایم پاکستان)

پیپلز پارٹی گذشتہ 13سال سے سندھ پر راج کررہی ہے۔ سندھ حکومت کراچی کے ٹیکس سے چلتی ہے لیکن کراچی اور صوبے کے دیگر شہری علاقوں کے ساتھ سوتیلی کا ماں سلوک کر رہی ہے۔ سندھ حکومت نے بلدیاتی نظام میں ترمیم کرکے اسے مزید کالا کر دیا ہے پہلے ہی بلدیاتی اختیارات کم کر دیے گئے تھے اور اب مزید نئی قانون سازی کرکے بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتوں کو معذورکر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی 18 ویں ترمیم کا کریڈٹ لیتی ہے لیکن 18 ترمیم کے تحت بلدیاتی اداروںکو اختیارات نہیں دیتی۔

ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔ یہ اختیارات ڈویژن ، ڈسٹرکٹ ، تحصیل اور یونین کونسل تک منتقل ہوں تاکہ ایک مضبوط بلدیاتی نظام کے ذریعے عوامی نمائندے مسائل کو حل کرسکیں۔پیپلز پارٹی  نے صوبائی اسمبلیمیں اکثریت کے بل بوتے پر نیا بلدیاتی نظام منظور کرایا ہے اس بلدیاتی نظام کوہم مستردکرتے ہیں۔آئین کا آرٹیکل140 یہ کہتا ہے کہ بلدیاتی نظام میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہئیں لیکن پیپلزپارٹی نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات مزیدکم کردیے گئے ہیں۔

اس نئے بلداتی نظام میں بنیادی تعلیم اور صحت کا نظام بھی مقامی حکومتوں سے واپس لے لیا گیا ہے۔ جب مقامی حکومتوں کے پاس انتظامی اور مالی اختیارات نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح عوام کی خدمت کریں گے۔  نئے بلدیاتی نظام میں میئر اور بلدیاتی نمائندوں کے پاس صفائی کے اختیارات بھی نہیں ہیں۔ وہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ذریعے انجام دیے جائیں گے۔

اس قانون پرپیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم سمیت کسی اپوزیشن جماعت سے مشاورت نہیں کی ۔ ایم کیو ایم مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ حکومت اس بلدیاتی نظام کو فوری ختم کرے اور آئین کی شق140اے کے مطابق سیاسی ، مالی اور انتظامی طور پر نیا بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے۔ ایم کیو ایم کی اے پی سی میں یہ مطالبہ کیاگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے  جن کی سفارشات کی روشنی میں سندھ حکومت نیا بلدیاتی نظام تشکیل دے ۔ قومی مالیاتی کمیشن کی طرز پر ڈویژن ، ڈسٹرکٹ ، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔  ایم کیو ایم پاکستان سندھ کے اس نئے بلدیاتی نظام کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کرے گی جب تک صوبے میں نیا بااختیار بلدیاتی نظام تشکیل نہیں دیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے ہم پر لسانی فسادات کرانے کی سازش کا الزام جھوٹا ہے۔ اس شہر کے امن کے لیے ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کسی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک پرامن جماعت ہے۔ ہم قانونی اور آئینی انداز میں احتجاج پر یقین رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ماضی میں بھی عوام کی خدمت کی ہے اور اب بھی ہم عوامی خدمت کے سفر کو جاری رکھیں گے۔ ہم بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں اور آئندہ بلدیاتی انتظامات میں بھرپور کامیابی حاصل کریں گے۔

خرم شیر زمان

(رکن سندھ اسمبلی ، صدر تحریک انصاف کراچی)

پیپلز پارٹی نے واٹر بورڈ ، بلڈنگ کنٹرول ، تعلیم صحت ، کئی محکموں کے اختیارات مقامی حکومتوں سے واپس لے لیے ہیں جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کا آرٹیکل140 اے یہ کہتا ہے کہ بلدیاتی نظام بااختیار ہونا چاہیے، سندھ اسمبلی سے جو نیا بلدیاتی قانون منظورکرایاگیا ہے ، یہ کالا قانون ہے، اس قانون کے تحت میئر کی حیثیت ایک ڈمی کی ہوگی اب میئر کے پاس سفارت کاروں کے استقبال کا اختیار بھی نہیں ہے۔ اس نئے نظام کے خلاف سندھ کی تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں۔ سندھ پہلے ہی تباہی کا شکار ہے۔

ایسے حالات میں بلدیاتی اداروں سے ان کے جائز اختیارات کو چھیننا عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ تم لوگ اقلیت میں ہو، ہم عوام کے منتخب نمائندے ہیں، ہمیں وزیر اعلیٰ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔13 سال سے پیپلز پارٹی سندھ کے اقتدار پر قابض ہے۔ سندھ حکومت نے نہ تعلیم دی ، نہ صحت ، نہ ٹرانسپورٹ ، کراچی کو ترقی وزیر اعظم عمران خان دے رہے ہیں جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ کراچی کے نالے وفاقی حکومت نے صاف کیے۔  فائر بریگیڈ وفاقی حکومت نے دی۔ گرین لائن بس پروجیکٹ دیا اب کے فور منصوبہ دیں گے۔

اس کالے قانون کے خلاف ہم ہر سطح پر احتجاج کریں گے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبے میں بااختیار بلدیاتی قانون بنایا جائے ۔ بلدیاتی حکومتوں کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، بنیادی صحت ، ترقیاتی اتھارٹی ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ماحولیاتی تحفظ کے اختیارات دیے جائیں ۔ بلدیاتی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا اعلان کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے ، جو بلدیاتی قوانین کا مسودہ تیار کرے ۔ نئے بلدیاتی قانون میں بلدیاتی اداروں کو اور نمائندوں کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت اختیارات دیے جائیں۔

تحریک انصاف کراچی کی اسٹیک ہولڈر جماعت ہے۔ ہم اس کالے قانون کی واپسی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ہم آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں ، ہمارا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات آئندہ جلد منعقد کیے جائیں۔ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کا انتخاب براہ راست ہونا چاہیے۔ اگر نئے بلدیاتی قانون کو دوبارہ بنایا جاتا ہے تو ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن

(امیر جماعت اسلامی کراچی)

پیپلز پارٹی وڈیروں کی جماعت ہے اور اکثریت کے بل بوتے پر بلدیاتی قانون کو اسمبلی سے منظور کروانا اس کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ کراچی سمیت صوبے بھر پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جماعت اسلامی اس نظام کو مسترد کرتی ہے۔ اس قانون کی منظوری جمہوریت اور آئین کے خلاف ہے۔  موجودہ بلدیاتی نظام میں مقامی حکومتوں کے اختیارات مزید کم کر دیے گئے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے سوا کوئی سیاسی جماعت اس بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہے۔ یہ بلدیاتی قانون کراچی بلکہ سندھ دشمن  ہے ، اس قانون کے ذریعے پیپلز پارٹی نے سندھ کے بلدیاتی اداروں کو مفلوج اور غیرموثر بنانے کی کوشش کی ہے جسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا تجارتی اور اقتصادی حب ہے  جو وفاق اور صوبے کو چلاتا ہے۔

آج کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے ، بجلی ، پانی ، سیوریج ، ٹرانسپورٹ ، صحت ، تعلیم اور دیگر مسائل حل نہیں ہورہے ہیں اور یہی حال اندرون سندھ کا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے میں یہ شق موجود ہے کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایا جائے گا۔ ماضی میں ایم کیوا یم پاکستان اور دیگر جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنے کیلیے کوئی کام نہیں کیا۔

ان تمام جماعتوں کو یہ جواب دینا ہوگا کہ انھوں نے بلدیاتی نظام کو مضبوط کیوں نہیں کیا۔ ترمیمی بل کی منظوری سے قبل ہم نے وزیر اعلی سندھ کو تجاویز اور سفارشات ارسال کی تھیں کہ بااختیار مقامی حکومتوں کا نظام بنایا جائے ہماری تجاویز اہل کراچی سمیت سندھ بھر کے مفاد میںہیں لیکن بل میں ان تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا۔ جماعت اسلامی اس بلدیاتی قانون کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھے گی۔ مردم شماری  میں بھی کراچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اگر کراچی کی مردم شماری درست ہوجائے تو سندھ اسمبلی میں کراچی کی نشستیں65 اور قومی اسمبلی میں35ہو جائیں گی۔ جماعت اسلامی جب جب بلدیاتی حکومتوں میں شامل رہی ہے ، ہم نے اس شہر کی خدمت کی ہے جس کی واضح مثالیں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کا بلدیاتی حکومتوں کا دور ہے۔ہم کالے قوانین کے ذریعے کراچی میں کسی کو قابض نہیں ہونے دیں گے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں سندھ کی ترقی کے لیے کچھ  نہیں کر رہی ہے۔

ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی نے مل کر کوٹا سسٹم میں اضافہ اور جعلی مردم شماری کی منظوری دے کر کراچی کے لوگوں پر شب و خون مارا ہے۔ اس بلدیاتی بل کے خلاف گلی محلوں کی سطح پر تحریک چلائیں گے۔ شہر میں کسی صورت لسانیت ، عصبیت اور وڈیرہ شاہی سیاست کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بلدیاتی نظام کو کالعدم قرار دیا جائے۔ نیا بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے ،اگر بااختیار بلدیاتی نظام کے لیے رابطہ کیا جائے گا تو حالات کے مطابق فیصلہ کریں گے۔

سید مصطفی کمال

(سابق سٹی ناظم، چیئرمین پاک سرزمین پارٹی)

پیپلز پارٹی سندھ کے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک کر رہی ہے،جمہوریت کے نام نہاد چیمپئن یہ بتائیں کہ دنیا کی کس جمہوریت میں گٹر لائنوں ، کچرا اٹھانے ، سڑکوں کی صفائی ، اسکولوں اور اسپتالوں کی اسٹریٹ لائٹس ، انفراا سٹرکچر ، بلڈنگ کنٹرول ، واٹر بورڈ ، ماسٹر  پلان اور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا سربرا وزیر اعلی یا وزیر بلدیات ہوتا ہے۔

سندھ اسمبلی میں طاقت کے بل بوتے پر ایک ایسا بلدیاتی نظام منظور کرایا گیا ہے  جس نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کو مفلوج کر دیا ہے۔ ہم اس نظام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری شہر یا معاشی حب میں اتنی محرومیاں نہیں ہیں جتنی پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ حکومت کی وجہ سے کراچی میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کا بلدیاتی نظام سیاہ قانون ہے یہ کراچی کو تھر اور لاڑکانہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ 14سال میں کراچی کو پانی کا ایک اضافی قطرہ نہیں دیا گیا، پیپلز پارٹی اپنے ہی بانی ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل کردہ 1973 کے آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

آئین کا آرٹیکل140 اے یہ کہتاہے کہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوں،ا منظور کردہ بلدیاتی نظام آئین کے آرٹیکل7 ، 8 ،32 ، 140 اے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ چاروں صوبائی حکومتیں مسائل کی جڑ ہیں، سارا پیسہ اور وسائل وزیر اعلیٰ کے پاس آتے ہیں ۔

وہ ڈسٹرکٹ کو پیسے اور وسائل نہیں دیتا۔2013 اور 2021 کے بلدیاتی قانون کو منسوخ اور 2001 کا بلدیاتی قانون بحال کیا جائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بااختیار بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے ، پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے3 حل پیش کرتے ہیں ، جس میں کراچی کا حل بھی ہے، پاکستان میں تین آئینی ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔ پہلی ترمیم یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی طرح بلدیاتی ادارے آئین میں لکھ دیے جائیں  ۔ دوسری ترمیم یہ ہے کہ این ایف سی کی مد میں ملنے والے پیسے پی ایف سی کے ذریعے ڈسٹرکٹ کو دیے جائیں اور اس حوالے سے آئین میں لکھ دیا جائے  جب تک صوبہ ڈسٹرکٹ کو پی ایف سی کے ذریعے پیسے نہیں دیتا اس وقت تک این ایف سی جاری نہیں کیا جائے۔ تیسری ترمیم یہ ہے کہ اس وقت تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ ہوں جب تک ڈسٹرکٹ کونسلیں نہ بنالی جائیں۔

جعلی ڈومیسائل بنا کر شہری کوٹا پر پیپلز پارٹی اپنے کارکنان کو نوکریاں دے رہی ہے۔ پی ایس پی آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے بااختیار بلدیاتی نظام کی تشکیل کے لیے ہم بات چیت اور اپنی سفارشات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم صوبے کے عوام کے احساس محرومی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس احساس محرومی کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ بااختیار بلدیاتی نظام ہے اور بااختیار بلدیاتی نظام کے لیے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

حسنین مرزا

( رکن سندھ اسمبلی، رہنما جی ڈی اے)

بااختیار بلدیاتی نظام وقت کی ضرورت ہے، جب تک اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوں گے عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے بلدیاتی نظام کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ اس بلدیاتی نظام نے بلدیاتی اداروں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کو مزید کم کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی صوبے کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ کراچی سمیت صوبے کے تمام اضلاع کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ آج بھی عوام صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ تعلیم ، صحت ، اور دیگر شعبوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ جی ڈی اے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس نظام کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں۔ اس بلدیاتی نظام کو فوری کالعدم قرا ردیا جائے اور بااختیار بلدیاتی نظام کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ اس نظام کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کریں گے، بلدیاتی اداروں کو آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت اختیارات دیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔