افغان عوام کی حالت زار

زبیر رحمٰن  منگل 21 دسمبر 2021
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

افغان عوام موت کے شکنجے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ آیندہ برسوں تک بھوک اور افلاس کے باعث 10 لاکھ افغان عوام جاں بحق ہوجائیں گے، اگر عالمی طور پر افغان عوام کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد نہ کی گئی تو یہ سانحہ رونما ہوگا۔ عالمی سامراجی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔

یمن میں 3 لاکھ بچے موت کے منہ میں بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں عوام بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور طالبان نبرد آزما تھے اور ہیں جب کہ عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔

افغانستان میں سب سے پہلے 1919تا 1929 تک انقلابی رہنما امان اللہ خان نے افغانستان کو ایک جدید بورژوا ریاست میں تبدیل کردیا تھا۔ 1919 میں پہلی بار افغان خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ سامراجیوں نے خاص کر امریکی سی آئی اے نے مذموم سازش کرکے امان اللہ خان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔

1978 میں افغان انقلابی فوج نے شاہ داؤد کا تختہ الٹ کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور دوسرے دن نیشنل انقلابی کونسل کو اقتدار سپرد کردیا ،کامریڈ نور محمد ترکئی افغانستان کے صدر بنے۔ انھوں نے جاگیرداری ختم کرکے 30 جریب سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں تقسیم کی۔ ولور (بردہ فروشی) یعنی شادی کے وقت لڑکی والے لڑکے والوں سے لاکھوں افغانی (سکہ) لیتے تھے اسے حکومت نے ختم کردیا۔ سود کے نظام کو جرم قرار دیا۔ سود پر قرض لینے والوں کو قرض کی ادائیگی اور سود کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

خواتین کو ووٹ ڈالنے اور مردوں کے برابر حقوق دیے۔ مخلوط تعلیم کا نظام رائج کیا۔ سامراجی سرمایہ کو بحق سرکار ضبط کیا۔ ان انقلابی اصلاحات سے امریکی سامراج خائف ہوا اور طالبان کو بیرونی مذہبی تنظیموں کے ذریعے افغانستان میں مسلسل مداخلت کی گئی اور تمام انقلابی اقدامات کا خاتمہ کردیا۔ امان اللہ خان کے اقتدار کی طرح 1978 سے 1988 تک بائیں بازو کی حکومت افغانستان میں 10 سال تک قائم تھی۔ آخر کار امریکی سازشوں اور مداخلت کے تحت، افغانستان کی انقلابی حکومت کا خاتمہ کیا اور آخری افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو شہید کیا۔

بائیں بازو کی 10 سالہ حکومت کے دوران کوئی بھوکا مرا، لاعلاج رہا اور نہ ناخواندہ۔ شرح تعلیم کو 10 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کردیا تھا۔ 1988 سے آج 2021 تک ، یعنی 33 برس میں لاکھوں افغان عوام قتل ہوئے، بے گھر اور بے روزگار ہوئے۔ آج بھی بھوک اور نیم فاقہ کشی سے گزرنے والے 3 کروڑ عوام کی کوئی غلطی نہیں۔ اس وقت کوئی امریکی حکمران اور افغان حکمران نہیں مر رہے ہیں ، اگر بھوک سے مر رہے ہیں تو افغان شہری اور محنت کش۔ آبادی کے 50 فیصد لوگ بھوک کا شکار ہیں، 35 لاکھ شہری بیرون ملک ہجرت کرگئے ہیں جب کہ اندرون ملک ہجرت کرنے والے 7 لاکھ ہیں۔

اقوام متحدہ ہر ہفتہ صرف 60 ہزار لوگوں کی مدد کر پا رہا ہے۔ یعنی کہ روزانہ تقریباً 8 ہزار لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ اب تک جن ممالک نے مدد کی ہے ان میں پاکستان، ہندوستان، چین، عرب امارات، بحرین، قطر، سعودی عرب اور ترکمانستان شامل ہیں۔ ادھر داعش نے کنڑکو اپنا مرکز بنا رکھا ہے۔ داعش اپنا کارکن بننے کے لیے 30 ہزار سے 50 ہزار افغانی کی پیش کش کرتا ہے۔ افغانستان میں بھوک افلاس اور غربت سے فائدہ اٹھا کر اس طرح سے جنگ جوئی کے لیے بھرتی کر رہا ہے۔

او آئی سی تنظیم کے 57 اراکین ہیں ، اگر 57 ممالک ایک ایک ارب ڈالر کا عطیہ دیں تو 57 ارب ڈالر کی مدد ہو سکتی ہے۔ لاکھوں افغان پڑوسی ملکوں میں پلاسٹک کے ٹینٹ میں گزر بسر کر رہے ہیں۔ اگر امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جاپان کا جھگڑا طالبان حکومت سے ہے تو عوام نے کیا بگاڑا ہے؟ افغانستان میں امریکا کی شکست ہوئی یا امریکا کا کتنا معاشی نقصان ہوا؟ یہ کھلی حقیقت ہے کہ افغان جنگ کا خرچہ امریکی عوام نے ادا کیا اور اندازوں کے مطابق مزید 25 تا 30 سال تک ادا کرتے رہیں گے ، لیکن امریکا کی اسلحہ ساز صنعتوں کے مالکان نے جن میں امریکا کے ریٹائرڈ جنرل بھی شامل ہیں اربوں کھربوں روپے کمائے۔

پاکستان کو امریکا بڑی حکمت عملی سے اقتصادی طور پر دیوالیہ کرکے معاشی بدحالی کے لیے آئی ایم ایف کے قرضے پر انحصار بڑھا کر اپنے حکم کی بجاآوری کروا رہا ہے۔ آنے والی ہر حکومت کا اس معاشی صورتحال کی وجہ سے امریکا اور آئی ایم ایف پر انحصار ہوگا تو ان کی پالیسیوں پر چلنا ان کی مجبوری ہو جائے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں لاکھوں انسان موت کے منتظر ہیں وہاں داعش جنگجوؤں کو ماہانہ 50 ہزار افغانی کہاں سے دے رہا ہے۔ حالات یہ بتاتے ہیں کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے مذاکرات ہوئے۔ طے پایا کہ عبوری حکومت بنے گی اور پھر انتخابات کرائے جائیں گے۔

چونکہ طالبان نے ایسا نہیں کیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا اس لیے امریکا اور مغربی سامراج یہ دکھاؤے کی بات کر رہا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، خواتین کو آزادی نہیں، لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہیں، حقیقتاً بات یہ ہے کہ طالبان نے حامد کرزئی، اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر پرانے نمک خواروں کو اس عبوری حکومت میں شامل نہیں کیا۔ انسانی حقوق کی پامالی توکیٹالونیہ، بھارت میں بھی ہو رہی ہے اس پر امریکا کیوں خاموش ہے۔

بقول پروفیسر نوم چومسکی امریکا اب تک 88 ملکوں میں بلاواسطہ اور باالواسطہ مداخلت کرچکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ جہاں تک دہشت گرد تنظیموں کا تعلق ہے ان کا خالق بھی امریکی سامراج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔