کے پی کے بلدیاتی نتائج، مولانا کی جیت

مزمل سہروردی  منگل 21 دسمبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کے لیے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔پی ٹی آئی کا ایک بھی میئر منتخب ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تحصیلوں کے انتخاب میں بھی جے یو آئی (ف) کی برتری نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف پہلی سے دوسری پوزیشن پر نظر آرہی ہے۔کئی مقامات پر اپ سیٹ ہوا ہے۔کئی جگہ تو اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان ہی مقابلہ نظر آیا ہے، جو اپنی جگہ ایک نئی سیاسی حقیقت ہے۔

کیا بلدیاتی انتخابات کے نتائج یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کے پی کے ووٹرز کی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ تحریک انصاف کو واضح برتری نہیں ملی ہے۔ کیوں؟ کیا کے پی کا ووٹر صوبائی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے؟ یا 2018 کے انتخابات RTSکا کمال تھے اور کے پی کے عوام کے سیاسی مزاج کے عکاس نہیں تھے۔2018 کے انتخابی نتائج جن سیاسی جماعتوں کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ کیسے ان سیاسی جماعتوں کی بحالی نظرآرہی ہے۔ اگر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو ووٹر کی سوچ میں تبدیلی مان لیں تو تحریک انصاف کے لیے کے پی میں بھی خطریکی گھنٹیاں بج چکی ہیں۔

ساڑھے تین سال سے حکومتی ترجمان ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ جے یو آئی (ف) کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی بے روزگار ہیں، اس لیے وہ موجودہ سیاسی نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتے، ان کی کوشش ہے کہ سیاسی بساط ہی لپیٹ دی جائے، تا ہم کے پی کے موجودہ بلدیاتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ وہ پشاور کے میئر کی سیٹ جیت چکے ہیں، بنوں کے میئر کی سیٹ جیت رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ 19 تحصیلوں میں بھی آگے ہیں۔ اب اسے کیا کہیں گے؟

اگر بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مولانا کے موقف کے تناظر میں دیکھا جائے کہ وہ کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت کے لیے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا ۔ اسی لیے وہ نتائج کو ماننے کے خلاف تھے۔کیا موجودہ نتائج ان کے موقف کی تائید کر رہے ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں بھی تھا تو اب وہ کے پی کی مقبول سیاسی جماعت بن کر ابھر آئے ہیں۔ جو اس بات کی تائید ہے کہ ساڑھے تین سال انھوں نے جو سیاست کی ہے کے پی، کے عوام نے اس کو پسند کیا ہے ۔ دونوں ہی صورتیں حکمران جماعت کے لیے خطرناک ہیں۔

کے پی، کے بلدیاتی نتائج اے این پی کی سیاسی بحالی کی بھی نوید دے رہے ہیں۔ وہ بھی کئی مقامات پر آگے نظر آرہے ہیں۔ کیا2018 میں تحریک انصاف کو جتوانے کے لیے اے این پی کو بھی ذبح کیا گیا تھا؟ کیا اے این پی بھی RTSکے کمالات کا شکار ہو گئی تھی۔ ویسے تو 2018 کے انتخابات کے بعد جب عمران خان نے پشاور سے جیتی ہوئی نشست چھوڑی تھی تو ضمنی انتخابات میں اے این پی نے یہ سیٹ جیت لی تھی۔ یہ بات تب بھی نا قابل فہم تھی کہ تحریک انصاف عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ ہی دوبارہ نہیں جیت سکی ہے۔

لیکن ایسا صرف پشاور میں ہی نہیں ہوا تھا، لاہور میں بھی عمران خان نے جو نشست چھوڑی تھی وہ بھی تحریک انصاف دوبارہ نہیں جیت سکی تھی۔ اس لیے 2018 کے عام انتخابات کے فوری بعد وہ جادو ختم ہو گیا تھا جو انتخابات میں چلتا نظر آیا تھا۔ کیا لوگوں نے عام انتخابات کے فوری بعد ہی سوچ بدل لی تھی۔ تب تو ابھی کارکردگی اور مہنگائی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اس لیے تحریک انصاف کی جیت پر جو سوالیہ نشانات موجود تھے کے پی، کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ان پر مزید مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے موقف کو تائید ملی ہے۔

جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے لیے بلدیاتی انتخابات کے نتائج گزشتہ عام انتخابات کے نتائج سے مختلف نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ وہ مزید اچھی کارکردگی دکھا سکتے تھے لیکن نہیں دکھا سکے۔ جماعت اسلامی سے بھی بہتر کارکردگی کی امید تھی۔ پیپلزپارٹی کی کارکردگی بھی کوئی خاص نہیں ہے۔ اس کے لیے کے پی بھی وہی نتائج دے رہا ہے جو پنجاب دے رہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مہنگائی بڑا فیکٹر ہے۔ لوگوں نے مہنگائی کے خلاف غصہ نکالا ہے۔

تحریک انصاف نے کے پی میں جتنا بھی کام کیا ہے، مہنگائی نے اس پر پانی پھیر دیا ہے۔ کیا اس سے ہم یہ سمجھیں کہ لوگوں نے تحریک انصاف کے اس بیانیے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ پاکستان دنیا میں سستا ترین ملک ہے۔ کیا لوگوں نے تحریک انصاف کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہو رہی ہے، اس لیے پاکستان میں بھی مہنگائی ہو رہی ہے۔ کیا مہنگائی کے خلاف حکومت کا پورا بیانیہ ہی زمین بوس ہو گیا ہے۔ کیا لوگوں نے تحریک انصاف کی کارکردگی پر عدم اعتماد کر دیا ہے۔

بلدیاتی نتائج کے اشاروں کو اگر مان لیا جائے تو کے پی میں اگلی حکومت جے یو آئی ف کی بنتی نظر آتی ہے۔ وہ چار میں سے تین میئر کے انتخابات جیت رہے ہیں۔ 19تحصیلیں جیتنے کے بعد کے پی میں یہ بات زبان زد عام ہو رہی ہے کہ اگلی حکومت مولانا کی بنے گی کے پی کے،کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار نظر آیا ہے۔ انتخابات سے قبل تحریک انصاف پر پری پول دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ کئی وڈیوز اور آڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔ تحریک انصاف کے وزیر مشیر انتخابات پر اثر انداز ہوتے نظر آئے ہیں لیکن یہ معمول کی بات ہے، ایسا سب حکومتیں کرتی ہیں۔ ہم جس قسم کی دھاندلی کے عادی ہیں، ایسی دھاندلی نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف کے لیے پنجاب سے اچھی خبریں پہلے ہی سامنے نہیں آرہی تھیں۔ کراچی میں بھی جیتی ہوئی سیٹ ہار چکے ہیں۔ اب کے پی میں بھی صورتحال خراب ہو گئی ہے تو عمران خان کے لیے اگلے انتخابات میں خطرات موجود ہیں۔ کے پی کے ، کو وہ اپنا ہوم گراؤنڈ کہتے تھے۔ خیبرپختونخوا کے عوام نے عمران خان کی افغان پالیسی کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ کیا لوگ ابھی افغانستان کے تناظر میں مولانا کے ہی ساتھ ہیں۔ بہر حال جہاں جہاں سے تحریک انصاف جیتی تھی ،اب وہاں سے ہارتی نظر آئی ہے، یہی حقیقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔