خیبرپختونخوا میں پرانے پاکستان کا چاند

سالار سلیمان  منگل 21 دسمبر 2021
خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کو سخت مایوس کیا۔ (فوٹو: فائل)

خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کو سخت مایوس کیا۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ حکومت کے نمائندے ہمیں باتیں تو بہت تواتر سے بتاتے تھے، ایک یہ کہ مرکز میں ان کےلیے ایک ٹرم کافی نہیں ہے، اِن کو دو ٹرمز دی جائیں اور دوسری بات یہ کہ عوام کی سوچ بدل چکی ہے اور اب انہوں نے کرپٹ عناصر کو مسترد کرنا شروع کردیا ہے۔ جب کہا جاتا تھا کہ نتائج؟ تو کہتے تھے کہ آہستہ آہستہ نتائج آئیں گے۔

پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2018 میں کے پی کے کو جنت نظیر کا ایک ٹکڑا بنا کر پیش کیا تھا۔ اس کی ٹھیک ٹھاک مارکیٹنگ بھی کی گئی تھی اور جب 2018 میں بھی کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو یہ کہا گیا کہ چونکہ ہم نے اچھا کام کیا تھا، لہٰذا عوام نے ہمیں دوسرا موقع دیا ہے اور اب ہم پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔ اب مرکز میں آنے کے بعد انہوں نے پاکستان کی واقعی تقدیر بدل دی کہ تمام معاشی ماہرین یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ پرانے پاکستان کے مثبت اور ترقی کرتے اعداد و شمار کے حصول کےلیے ہمیں 2024 تک کا انتظار کرنا پڑسکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب کہ ہم آج ہی معاشی سمت کو درست کریں۔ کیا ہم نے ایسا کیا ہے؟

خیر، اسی اثنا میں کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا اور نتائج نے پی ٹی آئی کو سخت مایوس کیا۔ وہ صوبہ جہاں اپوزیشن کی کوئی حیثیت نہیں تھی، جس کی اسمبلی میں بھی اپوزیشن عملاً فارغ ہے، جہاں پی ٹی آئی نے 9 سال سیاسی سرمایہ کاری کی ہے، جہاں پر پورا سیٹ اپ اور قوانین اُن کے اپنے ہیں، حتیٰ کہ پورا سسٹم ہی پی ٹی آئی کا اپنا ہے اور وہ اس کو کنٹرول بھی کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور اس کا اظہار الیکشن سے قبل ہوا بھی تھا، وہاں پر پی ٹی آئی بلدیاتی انتخابات ہار گئی ہے۔

یہ خیبرپختونخوا میں بہت بڑا اَپ سیٹ ہے۔ اس سے بڑی بات یہ ہے کہ جو پارٹی الیکشن جیت گئی ہے وہ جے یو آئی ف ہے۔ وہ جے یو آئی ف جو عام انتخابات کے بعد اسٹریٹ پاور کے لحاظ سے اچھی جماعت تھی لیکن پارلیمانی معاملات میں بالکل غیر موثر تھی۔ سب ہی جانتے ہیں کہ عمران خان کی مولانا فضل الرحمان سے پرانی محبت ہے اور وہ اس کا اظہار بہت مرتبہ کرچکے ہیں۔ اگر یہاں پر اے این پی سامنے آتی تو شاید تجزیات کچھ اور ہوتے لیکن جے یو آئی ف نے سامنے آکر عوام کا موڈ بالکل واضح کردیا ہے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جہاں پر پی ٹی آئی اپنے مضبوط قلعے بنا چکی تھی، وہاں پر شگاف کیسے پڑے؟ کیسے وہ وہاں پر الیکشن ہار گئی؟ پی ٹی آئی کو نمبرز کے حساب سے ایک دھچکا لگا ہے اور دوسرا دھچکا اس کو ووٹوں میں نمایاں کمی کی صورت میں بھی لگا ہے۔

اب خیبرپختونخوا میں انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی ہوگا لیکن یہ مرحلہ پی ٹی آئی کےلیے اتنا معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ ان اضلاع میں پی ٹی آئی کی حیثیت ثانوی ہے۔ یہاں پر دیگر جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ البتہ، پہلا مرحلہ انتہائی اہم تھا اور وہ پی ٹی آئی واضح فرق سے ہار چکی ہے۔

ان نتائج کا سب سے زیادہ فائدہ ظاہر ہے کہ جے یو آئی ف کو ہوگا۔ یہ تین سال تک سیاست سے باہر رہی ہے، اس کو مرکز میں سنجیدہ نہیں لیا جاتا رہا، تاہم پی ڈی ایم میں اس کی مرکزی حیثیت تھی۔ اب خیبرپختونخوا میں میدان مارنے کے بعد یہ اپوزیشن، صوبے اور مرکز کےلیے اہمیت اختیار کرچکی ہے۔ پی ٹی آئی جو مرضی رپورٹس فائل کرتی رہے کہ اندرونی اختلافات اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے الیکشن ہارے یا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی اعلیٰ کارکردگی کی بدولت یہ ہار گلے میں پڑے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوام نے ان کو مسترد کردیا ہے اور پی ٹی آئی کے ایک منسٹر نے ’’شاید‘‘ کے ساتھ ہی صحیح لیکن درست بات کی ہے کہ ناقابل برداشت اور ہوشربا مہنگائی نے ہمیں یہ الیکشن ہروا دیا ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ایک جانب پروپیگنڈہ ہوتا ہے وہیں کہیں نہ کہیں سے حقائق بھی سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ لہٰذا، جس وقت مہنگائی کا تقابل گزشتہ ادوار سے کیا جاتا ہے تو آنکھیں باہر آجاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کو حقیقت میں ایک مستحکم حکومت ورثے میں ملی تھی، نمبرز اٹھا کر دیکھ لیجئے لیکن چونکہ ہم تو سب کچھ جانتے ہیں کہ غرور میں مبتلا تھے، لہٰذا ہم نے ریورس گیئر لگایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ 9 سال کے بعد خیبرپختونخوا میں سب سے پہلے پرانے پاکستان کا چاند نظر آنا شروع ہوا ہے۔ عوام نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے۔

اس کے بعد پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات ہونے ہیں۔ یہاں پر ن لیگ کا مضبوط ہولڈ ہے اور اِس نے ضمنی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹ کر اپنا آپ منوایا بھی ہے۔ یہ نتائج سب سے زیادہ ن لیگ کےلیے حوصلے کا باعث ہیں۔ ن لیگ نے بھی مہنگائی کے بیانیے کو پکڑنا ہے اور یہاں پر پی ٹی آئی کو شکست کے زیادہ امکانات ہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ اور کابینہ کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ اب کل ملا کر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی بلدیاتی معرکہ مکمل ہارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ پہلے مرحلے کے نتائج آچکے ہیں، دوسرے مرحلے کا علم ہے۔

جماعت اسلامی کسی دور میں بلدیاتی سیاست میں کراچی تا خیبر بہت مشہور تھی، تاہم گزشتہ ایک دہائی سے زائد ہی کنفیوژڈ سیاست نے جماعت اسلامی کو پاکستان کی سیاست میں غیر متعلقہ بنادیا ہے۔ تاہم، اس کے باوجود خیبرپختونخوا میں اس کا اثر بہرحال تھا۔ یہ نتائج جماعت اسلامی کےلیے بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ دیکھتے ہیں، دوسرے مرحلے میں جماعت اسلامی کیا کرتی ہے۔ جماعت اسلامی کو چاہیے کہ اب وہ خواب غفلت سے جاگے اور سیاست میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ پاکستان کی پرانی پارٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے پاس دیانتدار اور پڑھی لکھی قیادت موجود ہے لیکن شاید اُن کی پولیٹیکل مارکیٹنگ ٹیم بالکل ہی فارغ ہے۔ اگر جماعت اسلامی نے آج بھی حقیقت کا سامنا نہ کیا تو پھر اگلے الیکشن سب سے زیادہ مایوس کن جماعت اسلامی کےلیے ہی ہوں گے۔

آخر میں عرض ہے کہ جب بھٹو کے دور حکومت میں مہنگائی نے عوام کو پریشان کردیا تھا تو دباؤ کے باعث بھٹو نے قبل از وقت انتخابات کروائے اور خوب دھاندلی سے دوبارہ اکثریت حاصل کرلی۔ ایسے میں اپوزیشن نے نتائج مسترد کرکے تحریک چلا دی۔ اس دوران بھٹو نے اپنے کارندہ خاص سے پوچھا تھا کہ ہم نے کتنی سیٹوں کو مینیج کیا ہے؟ غالباً پیرزادہ صاحب نے کہا کہ یہی کوئی 30 سیٹیں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر اپوزیشن اس پر بات کرلیں۔ لیکن، تب تک دیر ہوچکی تھی اور ’’پھر لائن کٹ گئی‘‘ اور پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

خاں صاحب کی حکومت بھی مہنگائی کے ہاتھوں ماضی بنتی جارہی ہے۔ کیا خاں صاحب اپنی ان غلطیوں سے کچھ سیکھیں گے؟ کیا خان صاحب ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں سے کچھ سیکھیں گے یا پھر وہ ہواؤں کے بدلتے رُخ کو پہچاننے کے بجائے ریت میں سر دے کر بیٹھ جائیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔