خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو شکست کیوں ہوئی؟

احتشام بشیر  بدھ 22 دسمبر 2021
تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ (فوٹو: فائل)

خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ختم ہوگیا۔ 17 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف مشکلات کا شکار رہی۔ جمعیت علمائے اسلام سب سے زیادہ تحصیل کونسلز کی نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ جے یو آئی ف نے پشاور کے میئر کی نشست سمیت 17 اضلاع میں 21 تحصیل کونسلز کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ پی ٹی آئی 15، اے این پی چھ اور مسلم لیگ 3 تحصیل کونسلز کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

2013 کے انتخابات کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبے کے تمام بڑے شہروں میں کامیابی کےلیے حکمران جماعت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ وفاقی و صوبائی وزرا اپنی پارٹی کے امیدواروں کے انتخابی مہم کا حصہ رہے۔ الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور،اسپیکر اسد قیصر، صوبائی وزرا تیمور سلیم جھگڑا، کامران بنگش سمیت حکومتی ارکان اسمبلی کو نوٹس جاری کیے، پھر بھی تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات میں متاثر کن نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بلدیاتی انتخابات میں عوام نے کپتان کے کھلاڑیوں کے بجائے مولانا کے کارکنوں پر اعتبار کیا۔

پشاور میئر کی نشست پر پورے صوبے کے سیاسی حلقوں کی نظر تھی۔ یہ اہم سیٹ جے یو آئی ف لے اڑی۔ اس سیٹ پر مولانا فضل الرحمان کے سمدھی حاجی غلام علی کے بیٹے زبیر علی کامیاب ہوئے۔

بلدیاتی انتخابات سے قبل اس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے معاملات کے ساتھ پی ٹی آئی کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی اختلافات سے ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر پی ٹی آئی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ پشاور سمیت کئی اضلاع میں ٹکٹ نہ ملنے پر کپتان کے کھلاڑیوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کا نقصان تحریک انصاف کو اٹھانا پڑا۔

پشاور میئر کی نشست پر سابق ڈسٹرکٹ نائب ناظم سید قاسم علی شاہ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر پارٹی کے کارکن بھی انھیں سپورٹ کررہے تھے لیکن اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت پر عین وقت پر ٹکٹ دینے کا فیصلہ تبدیل کردیا گیا اور پی ٹی آئی پشاور کے جنرل سیکریٹری رضوان بنگش کو ٹکٹ دے دیا گیا، جس سے پارٹی کے ورکرز میں ناراضی پائی گئی۔ اس ناراضی کو دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ پارٹی ورکرز میں پائی جانے والی بے چینی کو ختم کرنے اور اختلافات کو دیکھتے ہوئے پشاور میئر کی کامیابی کےلیے صوبائی وزرا تیمور سلیم جھگڑا اور کامران بنگش کو انتخابی مہم کا ٹاسک دیا گیا لیکن وہ بھی لاکھ کوشش کے باوجود پارٹی کو اندرونی خلفشار سے نہ بچا سکے۔ پی ٹی آئی، پی ٹی آئی سے شکست کھا گئی۔

حکومتی شخصیات نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کو تسلیم کیا ہے۔ وفاقی وزیر شبلی فراز کے مطابق شکست کی اصل وجہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو 14 اضلاع میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوسکتے تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کے حوالے سے پیسوں کی لین دین اور گاڑیوں کے تحفوں کے حوالے سے پارٹی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی انکوائری کرے گی۔ اگر کسی کے خلاف الزامات ثابت ہوئے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

الیکشن میں ڈپٹی اسپیکر محمود جان کے بھائی نے تحصیل متھرا سے حصہ لیا لیکن ان کے بھائی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ڈپٹی اسپیکر نے بھائی کی شکست کی ذمے داری پی ٹی آی کے ایم این اے نور عالم خان اور ممبر صوبائی اسمبلی ارباب وسیم پر ڈال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالم خان نے اپنے بہنوئی اور جے یو آئی کے امیدوار فرید اللہ خان کو مکمل طور پر سپورٹ کیا، جبکہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے ارباب وسیم آزاد امیدوار کو سپورٹ کررہے تھے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے بھتیجے ارباب محمد علی بھی پارٹی امیدوار کے بجائے مخالف امیدوار کو سپورٹ کررہے تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے تحصیل ممبران کو شکست کا سامنا رہا۔

انتخابات سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں تحریک انصاف کے ایک اجلاس میں وزیراعلیٰ کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات سے بلدیاتی انتخابات میں نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے اور پارٹی کے ارکان اسمبلی کی بھی نشاندہی کی گئی تھی جو پارٹی مخالف امیدواروں کو سپورٹ کررہے تھے۔ وزیراعلیٰ نے اس وقت پارٹی مخالف امیدواروں کو الیکشن سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تھا لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔

تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست ہوچکی ہے، اب تحریک انصاف کے بڑوں کو ہوش آیا اور پارٹی مخالف جانے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے پی ٹی آئی شکست کی وجوہات جاننے کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ پارٹی قیادت اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے پارٹی امیدواروں کے خلاف کام کرنے والے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کو مکمل رپورٹ فراہم کی جارہی ہے کہ کن کن حلقوں میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کے مخالف امیدواروں کو سپورٹ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کو رپورٹ کے بعد ان ارکان اسمبلی کو پہلے مرحلے میں نوٹس جاری کیا جائے گا اور ان سے وضاحت مانگی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کرکے ان کے خلاف کارروائی کی منظوری لی جائے گی۔ اس حوالے سے جب صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ پارٹی کے خلاف جانے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، پارٹی ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پارٹی اس حوالے سے تحقیقات کرے گی اور جس پر پارٹی کو نقصان پہنچانے کے ثبوت پائے گئے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی شکست کی وجوہات کے حوالے سے رپورٹ مانگ لی ہے اور خیبرپختونخوا کے پارلیمانی بورڈ کو طلب کرلیا ہے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات اگلے عام انتخابات کی تیاری تھی۔ ان انتخابات سے آئندہ عام انتخابات کے نتائج کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع سے عوامی رائے سامنے آگئی ہے اور اب جنوری میں خیبرپختونخوا کے باقی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ وزیراعلیٰ کا ضلع سوات بھی اگلے مرحلے میں شامل ہے اور پی ٹی آئی کو اب دوسرے مرحلے کے انتخابات کی فکر ہوگی۔ مالاکنڈ میں تحریک انصاف کو جے یو آئی اور اے این پی کا سامنا کرنا ہوگا۔

بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے بعد بڑا نقصان پیپلزپارٹی کو بھی ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی 17 اضلاع میں صرف ایک تحصیل نشست جیت سکی۔ پیپلزپارٹی کو صوبے میں عروج دینے کےلیے صوبائی قیادت تبدیل کی گئی، بلدیاتی انتخابات سے قبل پشاور میں جلسے کا انعقاد کیا گیا لیکن پھر بھی پیپلزپارٹی کی ساری مشقیں بے سود ثابت ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کو بھی حالیہ بلدیاتی انتخابات کو مدنظر رکھ کر 2023 کے عام انتخابات کی تیاری کرنا ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔