- وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلیے عزم کا اظہار
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گزشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
دھاگے جیسی بیٹری جسے ایک کلومیٹر جتنا لمبا بنایا جاسکتا ہے
بوسٹن: ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل لچکدار بیٹریوں کا ہی ہوگا۔ اس ضمن میں میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی ) کے ماہرین نے ایک دھاگہ نما بیٹری بنائی ہے جو 140 میٹرطویل ہے اور اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی ہے۔ اس س قبل انہوں نے 20 میٹر طویل دھاگہ بیٹری بنائی ہے۔
اب کمپیوٹر اور برقی آلات ہمارے جسم کا حصہ یوں بن چکے ہیں کہ اب انہیں برقی پہناوے ’ویئرایبل‘ کہا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی طرح لباس میں بیٹری سی دی جائے یا بیٹری کو لچکدار بنایا جائے۔ اس قسم کی پہلی بیٹری 2014 میں بنائی گئی تھی جسے کسی بھی کپڑے کا حصہ بنایا جاسکتا تھا۔
ایم آئی ٹی کے ماہرین نے دھاگے نما بیڑی لیتھیئم سے ہی بنائی ہے اور وہ چارج بھی کی جاسکتی ہے۔ انہیں مختلف سینسر، ویئرایبلز، کمپیوٹراور دیگر آلات کے لیے کامیابی سے آزمایا جاسکتا ہے۔ اس کی تحقیق جرنل میٹریئل میں شائع ہوئی جس پر پی ایچ ڈی کرنے والے 10 اسکالروں نے کام کیا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ریشوں سے بنی بیٹری موڑی، دھوئی اور نچوڑی بھی جاسکتی ہے اور اسے بار بار چارج کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل دھاگےنما بیٹری سے ایل ای ڈی اور دیگر اقسام کے سینسر چلائے گئے تھے۔ سائنسدانوں نے لیتھیئم کو دیگر مٹیریئرل کے ساتھ ملاکر اس کا تار بنایا ہے جبکہ بیرونی کوٹنگ کو بطورِ خاص واٹرپروف اور مضبوط بنایا گیا ہے۔ بیٹری کی لمبائی کی کوئی حد نہیں بلکہ اسے ایک کلومیٹر طویل بھی بنایا جاسکتا ہے۔
اس کےالیکٹروڈ (برقیرے) جیل پرمشتمل ہے اورمکمل طور پر فائر پروف بھی ہیں۔ تجرباتی طور پر 140 میٹر طویل دھاگہ بیٹری میں 123 می ایمپیئر آور بجلی جمع کی جاسکتی ہے۔ اس سے اسمارٹ واچ اور فون آسانی سے چارج کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح ایک دھاگہ بیٹری سے کئی آلات بھی چلائے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھاگہ بیٹری کو تھری ڈی پرنٹر سے بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
تجرباتی طورپردھاگہ بیٹری کو ایک زیرِآب ڈرون پر لپیٹا گیا ہے اور اس کی برقی قوت سےڈرون کو کامیابی سے چلایا گیا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔