دہشت گردی کا عذاب

زاہدہ حنا  بدھ 22 دسمبر 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آپ ’’افرینش‘‘ کی کہانی پر غورکریں تو ہابیل اور قابیل کے درمیان تنازعہ اور ان دونوں بھائیوں میں سے ایک کا قتل دہشت گردی نہیں توکیا ہے۔ ہزاروں برس کی انسانی تاریخ میں دہشت گردی ایک ایسی جونک ہے جو عالمی سطح پر انسانوں کو پہلے دن سے چمٹ گئی ہے۔

یہ انسانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت کا خون چوس رہی ہے ہماری سیکڑوں ، ہزاروں برس کی اقدار ، ثقافتیں ، تہذیبیں ، روایتیں منہدم ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے والے دونوں ہی فریق خود کو مظلوم کہتے ہیں۔

کوئی اپنے مذہب کی دہائی دیتے ہوئے دوسرے گروہوں پر جہنم کے درکھول رہا ہے اورکوئی اپنی ثقافت کو بچانے کا دعویٰ  کرتے ہوئے ، دوسری ثقافتوں کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ اس میں سب سے المناک یہ صورت حال ہے کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں کو تہس نہس کرنے میں ، ان کے نوزائیدہ بچوں ، تعلیم حاصل کرنے کی طلبگار لڑکیوں اور جدید سائنسی اور سماجی علوم کو سیکھ کر اپنے جنگ زدہ ملک کی تعمیر نوکے خواہش مند نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

اس کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں ، افغانستان میں انتہا پسندوں کی کارروائیاں اس کی سامنے کی مثال ہیں جس کا شکار کلمہ گو ہو رہے ہیں۔ کچھ یہی  عالم پاکستان کا ہے ، جہاں مختلف مسالک کے گروہ بے گناہ پاکستانیوں کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ثروت اختر نے اپنے موضوع سے انصاف کیا ہے اور مشرق و مغرب کے اہم دانشوروں کے خیالات کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ تاہم باب اول میں ان کا یہ موقف کہ ’’ دہشت گرد درحقیقت کمزورکا وہ ہتھیار ہے جو بالاتر قوتوں اور سامراجی تسلط کی بیخ کنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

اس موقف کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو ہم بیسویں صدی میں ہونے والی اس دہشت گردی کوکس دائرے میں رکھیں گے جو امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر مہلک ترین ہتھیار ایٹم بم گرا کر بے گناہ اور نہتے جاپانی شہریوں کا ستھراؤکیا تھا۔ یہ وہ دہشت گردی تھی جس سے آج تک ہزار ہا جاپانی نجات نہ پاسکے، یہ وہیں جو 1945 کی اس دہشت گردی کے بہت بعد پیدا ہوئے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس بارے میں اردون دھتی رائے کا موقف زیادہ صائب ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ تشدد کا گھیرا مزید تشدد اور انتشارکو نمایاں کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکی امپیریل ازم کو افغانستان اور مشرق وسطی میں کی جان والی فوجی کارروائیوں کی صورت اسلامی شدت پسندوں سے دہشت انگیزکارروائیوں کا اجتماعی خوف لاحق ہے اورآج دنیا کو دہشت گردی اور بربریت کی جس پھیلتی دلدل کا سامنا ہے۔ اس سے نجات کا کوئی آسان طریقہ موجود نہیں۔ طیش کو مٹانے کے بجائے بھڑکانے کی ہی کوششیں ہیں جو دہشت گردی پیدا کرتی ہیں۔‘‘

میں نے دہشت گردی کا عکس اردو شاعری اور حال میں ڈاکٹر ثروت اخترکی دہشت گردی کی ارتقائی عکاسی میں تلاش کیا اور اس کے لیے انھوں نے فیض قاسمی، محمود شام ، کشور ناہید اور رشیدہ عیاں کی شاعری کی شناوری کی۔ ہمارے یہاں رشیدہ عیاں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی لیکن ثروت جہاں نے دہشت گردی اور ظلم و استبداد کے بارے میں ان کی شاعری سے کیسے جواہر پارے اٹھائے ہیں۔ محمود شام کی نظم ’’ سرد جنگ کے خاتمے پر ‘‘ ہمارے سامنے عالمی سیاست اور منافقت کے کتنے ہی چہرے بے نقاب کرتی ہے۔

انھوں نے جدید افسانہ اور ناول نگاروں کی تحریروں سے دہشت گردی کے رجحانات نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں ، وہ پاکستان میں غیر قانونی اسلحے ، ہلاکت انگیز منشیات اور اس کا رشتہ بجا طور پر دہشت گردی سے جوڑتی ہیں۔ ہمارے یہاں وہ طبقہ بھی موجود ہے جو اپنے لوگوں کو ناقابل بیان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا رشتہ عروج اسلام سے منسلک کرتا ہے، لیکن ثروت اختر معاملات کو اعتدال پسندی اور انصاف سے جوڑکر دیکھتی ہیں۔

انھوں نے صرف افسانہ نگاری کی تخلیقات میں ہی دہشت گردی کے مناظر تلاش نہیں کیے ہیں ، وہ اردو کے اہم ناول نگاروں میں سے انتظار حسین ، مستنصر حسین تارڑ ، انیس ناگی ، حسن منظر کے ناولوں کا بھی تذکرہ کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں لوگوں کی اکثریت نے رشیدہ رضوی کو بھلا دیا لیکن ثروت اختر نے انھیں ڈھونڈ کر نکالا اور ان کی تخلیقات سے انصاف کیا۔ ’’ لڑکی ایک دل کے ویرانے میں ‘‘ ان کا پہلا ناول تھا۔ ان کے دو ناول ’’ اسی شمع کے آخری پروانے‘‘ اور ’’ گھر مرا ، راستے غم کے ‘‘ زیرنظرکتاب میں تفصیل سے زیر بحث آئے ہیں۔

یہ ایک بڑی بات ہوتی ہے کہ جو لوگ بھلا دیے گئے ہوں انھیں یاد کیا جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لایا جائے۔ اسی طرح ثروت اختر نے اردوکالموں میں بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی عکاسی کو تلاش کیا ہے اور ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ کالموں میں اس نوعیت کا معاملات پرگفتگو زیادہ آسان ہوتی ہے۔ ایک جگہ وہ جاوید چوہدری کے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ 62 مسلمان ملک کوفہ بن کر بیٹھے ہیں‘‘ یا ان ہی کے دوسرے کالم ’’ ہم امریکا کے غلام نہیں ہیں ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’ افغانستان میں ہونے والے ہرحملے کے ہم نے مذمت کی اور امریکا نے ہماری ہر مذمت کا جواب حملے کی صورت میں دیا لیکن ہم امریکا کے غلام نہیں ہیں۔‘‘ یہ ایک کاٹ دار جملہ ہے جو پڑھنے والے کو سب ہی کچھ سمجھا دیتا ہے۔

ڈاکٹر ثروت اختر نے دہشت گردی کے پس منظر و عوامل کا کمال تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’ تاریخ انسانی ہمیں بتاتی ہے کہ قومیں ایک دوسرے پر حملہ کرتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں پر امن لوگوںکا قتل، مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی ، مال و دولت کی لوٹ کھسوٹ ، اذیت اور ایذا رسائی پر عمل ہوتا رہا ہے۔

انھوں نے ڈاکٹر مبارک علی کی تحریرکا حوالہ دیا ہے ، جس میں متشدانہ طرز عمل کے بارے میں کہتے ہیں ’’ بعض اوقات بلاجواز اپنے ہمسایہ ملکوں پر حملے کرنا اور ان کی زمینوں اور مال و دولت پر طاقت و قوت سے قبضہ کرکے انھیں بے دخل کر دیا کرتے ، لیکن انھیں کسی بھی لمحے یہ خیال نہیں آیا کہ وہ انسانیت کے خلاف جرم کررہے ہیں۔ ان حملوں اور فتوحات کے پس منظر میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا نظریہ ہوتا تھا جو ان حملوں ، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے لیے جواز فراہم کرتا تھا اور جس کی وجہ سے انھیں یہ یقین کامل ہوتا تھا کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں ، اس کے ذریعے ایک مشن کی تکمیل ہورہی ہے۔‘‘

مذہبی منافرت کس طرح دہشت گردی کا سبب بنتی ہے، اس حوالے سے وہ دوبارہ ڈاکٹر مبارک علی کے ایک اور مضمون کا حوالہ دیتی ہیں ، جس میں ان کا کہنا ہے ’’ مذہب کا سیاست کے ساتھ ملاپ اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے جب حکمران اور اہل اقتدار اپنے مخالفوں اور سیاسی دشمنوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے اس کا استعمال کرتے تھے اور اس طرح اپنے ناجائزاقدامات کو مذہبی جواز کہتے تھے جب مذہب سیاسی مفادات کو اخلاقی اور قانونی بنیادیں فراہم کردیتا ہے تو پھر سیاسی مخالفوں کو اذیتیں دینا ، قید و بند میں رکھنا اور قتل کرنا ثواب بن جاتا ہے۔‘‘

دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے ادب میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ تاہم ، ابھی بہت سے سیر حاصل تبصرے اور تحقیق آنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ اس نوعیت کی کتابیں ہماری نئی نسل کو بہت کچھ سکھائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔