عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 23 دسمبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سرسید احمد خان سیلف گورنمنٹ کے مخالف تھے۔ سرسید احمد کا یہ مفروضہ تھا کہ ابھی ہندوستان کے باشندوں میں اتنی اہلیت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ ووٹ کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور مناسب امیدواروں کا چناؤ کر سکیں۔ پیپلز پارٹی کا بنیادی نعرہ ’’ عوام طاقت کا سرچشمہ ‘‘ ہے مگر یہ حکومت بھی نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی اداروں کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام مسلسل سیاسی تنازعات اور عوام میں خلیج کا باعث بن رہا ہے۔

پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں آدھا وقت غیر سول حکومتوں کے دور کا رہا۔ جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف منتخب پارلیمنٹ کو ختم کرکے برسر اقتدار آئے تھے۔ انھوں نے پہلے پارلیمنٹ کے انتخابات اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کے نظریہ کی مخالفت کی اور پارلیمنٹ نہ ہونے کا یہ حل نکالا کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد کرائے اور ان اداروں اور ان کی قیادت کو پارلیمنٹ اور جمہوری قیادت کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔

یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی اداروں سے متبادل قیادت ابھری۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آتے ہی ری کنسٹرکشن بیورو قائم کیا اور جنرل نقوی کو اس بیوروکا سربراہ مقررکیا۔ اس بیورو نے نے نچلی سطح تک اختیارات کو عملی شکل دینے کے لیے بلدیاتی اداروں کا نقشہ تیارکیا ، بلدیاتی آرڈیننس نافذکیا۔ اس آرڈیننس کے تحت پہلی دفعہ ناظم کو مکمل طور پر خودمختار بنایا گیا۔ شہرکے ناظم کو لندن اور نیویارک کے میئرکی طرح تمام انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے گئے اورایسٹ انڈیا کمپنی کا قائم کردہ ڈپٹی کمشنرکا ادارہ ختم کیا گیا۔

ضلع کے کمشنرکو ڈسٹرکٹ کوآرڈیننٹنگ افسر کا نام دیا گیا۔ اس نظام میں خواتین کی 40 فیصد نمائندگی کو لازمی قرار دیا گیا، یوں کراچی، حیدرآباد اور لاہور وغیرہ میں ترقی کاایک نیا دور شروع ہوا۔ اس نظام کے تحت تعلیم، صحت اور مواصلات وغیرہ کے شعبوں کو ناظم کی نگرانی میں دیا گیا، یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ ضلعے براہِ راست وفاق سے منسلک ہوگئے ۔ آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری عملی طور پر ختم ہوگئی۔ صدر پرویز مشرف نے اس نظام کی کامیابی میں گہری دلچسپی لی مگر اس نظام کی بناء پر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے اراکین کے پاس نالوں کی صفائی، پانی کی فراہمی اور اسپتالوں میں اپنی مرضی سے مداخلت کا جواز نہ رہا۔ اب صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین کا بنیادی فریضہ پالیسیاں تیارکرنا اور قانون سازی تک محدود رہا۔

پرویز مشرف کا دور توکسی نہ کسی طرح گزر گیا مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو اندازہ ہوا کہ انھوں نے لاکھوں روپے دے کر پارٹی ٹکٹ خرید لیا ہے جوکہ سب ضایع ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں وزراء کو اپنے بے اختیار ہونے کا کچھ زیادہ ہی احساس ہوا۔ انھوں نے یہ مہم شروع کی کہ اس نظام میں سندھ کا تعلیمی نظام تباہ ہورہا ہے، بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوگئی۔ اس وقت ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی۔ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد ایم کیو ایم کے وزراء کے سرپرست تھے۔

عشرت العباد کو لندن میں مقیم الطاف حسین کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ عشرت العباد صدر زرداری سے بھی قربت کی وجہ سے بھی شہرت حاصل کرچکے تھے، یوں ان کی نگرانی میں بلدیاتی ڈھانچہ کے قانون پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ ایک مسودہ نافذ بھی ہوا تو سندھی قوم پرستوں کو جلال آگیا۔ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کیا تو بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور نئے قانون کی تیاری کا معاملہ کہیں اخباری فائلوں میں کھوگیا۔

سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے مسلسل سماعت کی اور پیپلز پارٹی نے مجبوراً 2013 بلدیاتی قانون نافذکیا۔ اس قانون میں کونسلر کے ادارہ کو مفلوج کردیا گیا ، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر ادارے صوبائی حکومت کے پاس چلے گئے۔سندھ کے تمام شہرکوڑے کے ٹیلوں میں تبدیل ہوئے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں اور بلدیاتی اداروں میں ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کو پامال کیا گیا۔

ہر ضلع کی گریڈ 1 سے گریڈ 15 تک کی ملازمتوں میں دیگر اضلاع کے شہریوں کا تقرر ہوا، یوں سندھ کے شہری اور دیہی نمائندوں کے درمیان خلیج بڑھ گئی۔ اب پھر 2013کے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ایم کیو ایم کے وسیم اختر میئر منتخب ہوئے جو اس وقت جیل میں تھے ، ان کا دور اختیارات کے بغیرگزرا۔

اس دفعہ الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر مجبورکیا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں میں کچھ مماثلت ہے۔ دونوں جماعتوں کے منشور میں بلدیاتی اداروں کا ذکر تو ہے مگر دونوں جماعتوں نے اقتدار میں آتے ہی بلدیاتی نظام کے خاتمہ کے لیے سوچ بچار شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انھوں نے مشیروں کا تیارکردہ بیان صحافیوں کے سامنے پڑھا کہ کراچی میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک  نیا بلدیاتی قانون نافذ ہوا۔ اس قانون میں شعبہ تعلیم کے علاوہ صحت کے تمام اسپتال اور بلدیہ کراچی کا قائم کردہ میڈیکل کالج صوبائی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

یونین کونسل سے پیدائش ، شادی ، اموات ، رجسٹریشن کا فریضہ صوبائی حکومت کے پاس چلا گیا۔ واٹر بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ سے منتخب میئرکو دورکیا گیا۔ ایم کیو ایم، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جی ڈی اے نے ایک تحریک شروع کی۔ گورنر نے بل پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ صوبائی حکومت نے دوبارہ بلدیاتی قانون کے مسودہ کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا۔

اب حکومت کچھ محکموں کو بلدیاتی اداروں کو واپس کرنے پر مجبور ہوئی۔ پیدائش،اموات اور شادی کے سرٹیفکیٹ کے اجراء کا شعبہ یونین کونسل کو واپس ملا۔ حکومت نے واٹر بورڈ اور ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ جس کا سربراہ وزیر بلدیات ہے اور میئر کو ان اداروں کا، کو چیئرمین (شریک چیئرمین) مقررکیا گیا۔ کو چیئرمین کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب وزیر بلدیات دستیاب نہیں ہونگے ، یوں حکومت نے عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے حزب اختلاف کے لیے وہی الفاظ استعمال کیے جو وزیر اعظم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں تضادات مزید تیز ہوئے اور اس کی شکل لسانی نظر آنے لگی ، یہ صورتحال خطرناک ہے۔ پیپلز پارٹی حزب اختلاف سے مذاکرات کرے یا نہ کرے مگر نچلی سطح تک بلدیاتی نظام کے تصورکو عملی شکل دینی چاہیے، سندھ مختلف قوموں کا گلدستہ ہے۔

تمام قومیں بھائی چارہ ، برداشت اور محبت پر یقین رکھتی ہیں مگر قانون کی پامالی سے صورتحال سنگین ہورہی ہے۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں کا عملی مطلب عوام کو مکمل با اختیار بنانا ہے، یہ مقصد نچلی سطح تک اختیار منتقل کرکے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔