صوبوں کے مختلف بلدیاتی نظام کیوں؟

محمد سعید آرائیں  جمعرات 23 دسمبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

دنیا بھر میں جس طرح تعلیم، صحت، مواصلات، توانائی جیسے بنیادی مسائل سے تعلق رکھنے والے حکومتی محکمے ہر ملک میں ایک جیسے ہیں اور وہاں صوبوں یا انتظامی یونٹوں میں یکساں طور پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے محکمے کام کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بلدیاتی نظام موجود ہیں جو عوام کے بنیادی مسائل حل کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کا محکمہ بھی متعلقہ میئر کے ماتحت ہوتا ہے اور پولیس افسران اپنے اعلیٰ افسران کے ساتھ میئر کو بھی جواب دہ ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے بلدیاتی ادارے وہاں کی مقامی حکومت ہوتے ہیں جو اپنے مالی وسائل خود پیدا کرتے ہیں اور اپنے اوپر کی حکومتوں کے مالی طور پر محتاج ہوتے ہیں نہ حکومتیں وہاں مکمل بااختیار ہوتی ہیں اور محکمہ بلدیات کی محتاج نہیں ہوتیں۔

متعلقہ میئر مالی طور پر اپنی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں نہ انتظامی طور پر حاصل اختیارات میں کسی کے محتاج ہوتے ہیں اور اپنے مقامی حکومتوں کی مقررہ اختیارات خود استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور انھیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ ان کے اوپر کی مرکزی یا صوبائی حکومتیں کون سی پارٹی کی ہیں اور کوئی بھی ان کی مخالف سیاسی پارٹی کی حکومت انھیں ختم کرسکتی ہے۔ فنڈز روک سکتی ہے اور اپنی مرضی کے اعلیٰ افسران ان پر مسلط یا اپنے پارٹی کارکنوں کو ان مقامی حکومتوں میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرتی کرسکتی ہیں کہ جس طرح پاکستان میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں بلدیاتی ادارے مقامی طور پر بااختیار مقامی حکومت نہیں ہوتے بلکہ محکمہ بلدیات کے ماتحت بلدیہ عظمیٰ ضلع، میونسپل، ٹاؤن یا یونین کونسلوں کے نام سے متعلقہ علاقائی بلدیاتی ادارے کہلاتے ہیں جو مکمل طور پر صوبائی حکومت محکمہ بلدیات اور کمشنری نظام کے کنٹرول میں ہوتے ہیں بلکہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر بھی ان کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہوتے ہیں اور ان بلدیاتی اداروں پر حکم چلاتے ہیں اور بلدیاتی افسروں سے مرضی کے کام لیتے ہیں اور اپنے مفاد کے لیے بلدیاتی فنڈز بھی غیر قانونی طور خرچ کراتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کی کسی صوبائی حکومت یا مرکز نے ملک کو مضبوط بلدیاتی نظام دینا تو کیا کبھی بلدیاتی انتخابات کرانے پر توجہ نہیں دی بلکہ جب بھی ملک میں بے اختیار بلدیاتی اداروں کے الیکشن ہوئے وہ ملک کے فوجی صدور نے کرائے۔ فوجی حکومتوں کے خاتمے کے بعد 2015 میں ملک میں بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے تھے اور اس وقت ملک میں ایک جیسا بلدیاتی نظام تھا۔ جنرل ایوب خان نے ملک کو جو بی ڈی نظام دیا تھا اس کے منتخب بلدیاتی نمایندوں نے اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں صدر کا انتخاب بھی کیا تھا۔

بی ڈی سسٹم کے بعد جنرل ضیا الحق کے سب سے طویل فوجی دور میں انھوں نے ملک کو 1979 کا بلدیاتی نظام دیا تھا جو منتخب عوامی نمایندوں کو محدود اختیارات دیتا تھا مگر منتخب بلدیاتی میئر اور چیئرمین اتنے خودمختار تھے کہ وہ صدر اور گورنروں تک کے سرکاری دوروں کا بائیکاٹ کیا کرتے تھے آج کے نام نہاد جمہوری دور میں ملک کے کسی میئر یا چیئرمین کی یہ جرأت نہیں کہ وہ اپنے وزیر اعلیٰ تو کیا اپنے وزیر بلدیات کے دورے کا بائیکاٹ کرسکے۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے بلدیاتی سربراہوں نے ان کے دوروں کا بائیکاٹ کیا تھا۔

بااختیار مگر نام نہاد جمہوری حکومت میں وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے منتخب بلدیاتی ادارے محض اس لیے ختم کرا دیے تھے کہ وہاں اکثر بلدیاتی نمایندوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا اور سرکاری ایڈمنسٹریٹر مسلط کر دیے تھے۔ لگتا ہے کہ ملک کے بلدیاتی اداروں کی تو اہمیت نہیں ہے کہ اس سلسلے میں ایکشن لیا جائے۔ دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بلدیاتی عہدیداروں کی درخواست کا فیصلہ ہوا جو عدالت نے بحال کیے جن کی مدت ختم ہو رہی ہے اور انھیں غیر قانونی طور پنجاب حکومت نے برطرف کیا تھا۔

دنیا بھر میں حکومتوں کا تین سطحی نظام ہوتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم نے ملک میں بلدیاتی نظام تباہ اور مختلف کرا دیے جو مقامی حکومت بھی نہیں کہلاتے جو بے اختیار، محتاج بلدیاتی ادارے ہیں اور ہر صوبائی حکومت نے اپنے صوبوں کو اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام دے رکھا ہے اور آئین کی خلاف ورزی کرکے صوبائی حکومتیں نہ مقامی حکومتیں بناتی ہیں نہ انھیں فنڈز دیتی ہیں بلکہ بلدیاتی فنڈ خود استعمال کر رہی ہیں جب کہ آئینی طور پر ملک میں تین سطح پر حکومتیں قائم ہونی چاہئیں جو صوبہ نہیں وفاق کے ماتحت ہونی چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔