کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کےلیے بھی اجلاس کیجئے

ضیا الرحمٰن ضیا  جمعـء 24 دسمبر 2021
مسلم امہ کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی یکجا ہو۔ (فوٹو: فائل)

مسلم امہ کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی یکجا ہو۔ (فوٹو: فائل)

19 دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس کا یک نکاتی ایجنڈا افغانستان تھا۔ یہ اجلاس کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچا اور اللہ کے فضل و کرم سے وی آئی پی وفود کی آمدورفت بخیر و عافیت انجام پائی۔

جب تک وی آئی پی وفود اسلام آباد میں رہے، مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے دلوں میں خوف کے سائے منڈلاتے رہے کہ خدانخواستہ کوئی غیر معمولی حادثہ یا واقعہ کسی بھی وفد کے ساتھ پیش آگیا تو پاکستان پر آئندہ غیر ملکیوں کا اعتماد بالکل ختم ہوجائے گا، کیونکہ پاکستان کے دشمن خصوصاً بھارت یہی چاہتا ہے اور اس کی تاک میں بھی رہتا ہے اس لیے کوئی شرارت بھی کرسکتا ہے۔ اس دوران ایک چھوٹا سا واقعہ وفاقی وزیر شبلی فراز کی گاڑی پر فائرنگ کا پیش آیا جو کہ قابل مذمت ہے لیکن اللہ کا شکر کہ وہ ہمارا اندرونی معاملہ تھا، کسی غیر ملکی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور اجلاس بخیر و عافیت اختتام پذیر ہوگیا۔

اس اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ افغانستان کو پرامن، مستحکم اور خودمختار بنانے کا عزم کیا گیا۔ افغانستان میں انسانی بحران کے پیش نظر افغانستان کی مالی امداد پر زور دیا گیا اور کئی ممالک کے وزرا نے افغانستان کےلیے امداد کا اعلان بھی کیا۔ افغانستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کا عزم اور افغان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کےلیے او آئی سی کا ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور اقوام متحدہ اور او آئی سی کے چارٹر کے تحت انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کرے۔ افغانوں کو پناہ دینے والے ممالک کی امداد کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ اسلامی رواداری، اعتدال، تعلیم اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے افغان حکومت سے بات چیت کےلیے علما کے ایک وفد کے اہتمام کا عزم کیا گیا۔

مجموعی طور پر یہ اجلاس نہایت سودمند ثابت ہوا، جس میں افغانستان کی موجودہ صورت حال پر غور کیا گیا اور افغانوں کےلیے امداد کا انتظام کرنے میں یہ اجلاس نہایت معاون ثابت ہوا۔ اس اجلاس کے ذریعے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور انہیں مستحکم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوتی دکھائی دی۔

یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا جو افغانستان کی صورتحال پر منعقد ہوا اور اس کے ثمرات بھی دیکھے گئے۔ ایسے ہی دیگر مظلوم اسلامی ممالک یا خطوں کے حوالے سے بھی غیر معمولی اجلاسوں کی ضرورت ہے۔ ان میں کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمان سرفہرست ہیں۔

کشمیر میں بھارت نے بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔ کشمیر جو کہ مسلم اکثریتی خطہ ہے اور سیاسی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور عوامی جذبات کے لحاظ سے پاکستان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے لیکن بھارت نے بزور طاقت اس پر قبضہ جما رکھا ہے اور وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔ پوری وادی کو مقتل بنا رکھا ہے، جہاں آئے روز شہریوں بالخصوص نوجوانوں کو شہید کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر میں ایک طویل عرصے سے لاک ڈاؤن لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمان آزادانہ نقل و حرکت نہیں کرسکتے۔ یہ درست کہا جاتا ہے کہ کشمیر کو بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ کشمیری بھیڑیا نما ظالم بھارتی فوجوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور پوری امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کی طرف امداد کی امید سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی مسلمان ملک آگے بڑھے اور ہمیں ان ظالموں کی قید سے رہائی دلا دے۔

مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کی طرح ایک طویل عرصے سے امت مسلمہ کی توجہ کا منتظر ہے۔ وہاں بھی بھارت کے بھائی اسرائیل نے ناجائز تسلط قائم کیا ہوا ہے اور وہاں کے عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمان بموں اور جہازوں کی گھن گرج میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کسی بھی وقت اسرائیل کے سر پر خون سوار ہوجاتا ہے اور وہ اپنے طیارے لے کر پہنچ جاتا ہے اور کوئی بہانہ تراش کر براہ راست شہری آبادیوں پر بمباری شروع کر دیتا ہے، جس سے کئی معصوموں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوجاتے ہیں۔ ان کی چیخ و پکار درندہ صفت اسرائیلیوں کو کوئی خوبصورت میوزک محسوس ہوتا ہے اور وہ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ فلسطینی بھی امت مسلمہ کی راہ دیکھتے دیکھتے اب خاموشی سے موت کا راستہ دیکھنے لگے ہیں۔ کیونکہ امت مسلمہ نے ان کے سفاک قاتلوں سے بلا مشروط یاریاں لگانی شروع کردی ہیں، ان سے گلے ملنے لگے ہیں۔ اب فلسطینی کس امید سے امت مسلمہ کو پکاریں؟

اسی طرح میانمار کے مسلمانوں پر 2017 میں وہاں کی فوج نے یک دم ظلم کی انتہا کردی اور لاکھوں معصوموں کے گھر جلا دیے، ہزاروں بے دردی سے قتل کردیے۔ میانمار کے مسلمان بمشکل اپنی جانیں بچا کر اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے اور اردگرد کے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن جن ممالک میں انہوں نے پناہ لی وہاں بھی ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بھارت میں ہیں۔ بھارت میں تو پہلے سے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا تو باہر سے آئے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا بہتر سلوک کریں گے۔

اس وقت روہنگیا مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد بنگلہ دیش میں ہے۔ وہاں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ لیے ہوئے ہیں جو کہ بنگلہ دیش پر بہت بڑے بوجھ کا باعث ہیں۔ انہیں وہاں کوئی خاص حقوق اور سہولیات حاصل نہیں ہیں، ان کا مستقبل تاریک ہے۔ نہ تو وہ واپس اپنے ملک میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی بنگلہ دیش میں خود کو ترقی دے سکتے ہیں۔

لہٰذا مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام خطوں کے مظلوم مسلمانوں کےلیے الگ الگ اجلاسوں کا انعقاد کریں اور ان کے مسائل پر غوروخوض کریں۔ انہیں بحرانوں سے نکالنے کےلیے کوشش کریں اور ہر طرح کی امداد پہنچائیں۔ کشمیری، فلسطینی اور برمی مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کےلیے بھارت، اسرائیل اور میانمار کی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کریں اور وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کا خیال کریں۔

اگر مسلم امہ اپنے اندر غیرت اسلامی پیدا کرکے یک زبان ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کفر ان کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور بھارت کے ساتھ مراسم قائم کرنے کا اتنا ہی شوق ہے یا ان کے بقول ضرورت بھی ہے تو کم از کم کچھ شرائط ہی رکھ لیں کہ پہلے فلسطین کی ایک آزاد ریاست قائم کی جائے۔ اسی طرح کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے انہیں ان کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ اسی طرح میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو دوبارہ اپنے علاقوں اور گھروں میں آباد کرے اور ان کے حقوق کی پاسداری کرے۔

ان تمام مسائل کےلیے الگ الگ اجلاس منعقد کیے جائیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور کیا جائے تبھی یہ مسائل حل ہوں گے۔ ان مسائل کو حل کرنا آسودہ حال مسلم حکمرانوں کا اولین فریضہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔