قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 24 دسمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

کل یوم ولادت ِقائدِ پاکستان محمد علی جناح ہے، ایک طرف ہم اُن کی ولادت کی خوشی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جب کہ دوسری طرف میرے سامنے اخبار میں ایک وفاقی وزیر سری لنکن سفارتخانے میں ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں، یہ بالکل ایسے لگ رہا ہے جیسے پورا پاکستان سری لنکا کے سامنے ہاتھ جوڑے اور نظریں جھکائے کھڑا ہے۔ ہو بھی کیوں نا! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کے ہم سب ذمے دار ہیں؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے

’’ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں‘‘

جب کہ اس کے برعکس میرے قائد ایسا پاکستان چاہتے تھے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کریں۔ تبھی انھوں نے 11اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ ’’آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے،یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے، پھرکہاکہ میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم  تاریک دور سے اپنا آغاز نہیں کررہے ہیں۔بلکہ ہم تو ایک ایسے عہد میں اپنے ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس میں پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔ہم سب ایک قوم ہیں۔مزید فرمایا ’’میرے خیال میں عقیدے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔

ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں۔کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔‘‘

چند سال تک اُن کے کہے پر عمل بھی ہوتا رہا حتیٰ کہ 70کی دہائی تک تو کراچی، لاہور، پشاور میں ’’اینگلو انڈینز‘‘( انگریز دور حکومت میں ہزاروں انگریزملازمین نے برصغیرمیں شادیاں کرنی شروع کردی تھیں۔اس سماجی اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، جواینگلوانڈینز (Angloindians) کہلاتے تھے۔ اینگلو انڈینز برصغیر میں رہتے تھے مگر فکری طورپربرطانیہ سے منسلک تھے۔تقسیم ہندکے وقت محتاط اندازے کے مطابق ان کی آبادی تیس لاکھ کے قریب تھی۔

پاکستان میں بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ یہ لوگ شہری طبقہ تھے۔ کولکتہ شہر میںآج بھی ہزاروں اینگلو انڈینز خاندان رہائش پذیر ہیں مگر پاکستان میں ان کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی،اینگلو انڈینز تعلیم یافتہ اورماڈرن کلچر کے حامل لوگ تھے ، یہ یہاں سے ہجرت کرکے برطانیہ جانا شروع ہوگئے اور اب پاکستان میں اینگلو انڈینز نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، ساٹھ کی دہائی تک پاکستان کے کئی اہم سرکاری شعبوں میں اینگلو انڈینز حساس اور اہم ذمے داریاں انجام دے رہے تھے۔

فوج میں بھی اس کمیونٹی کے افسروں نے اہم ذمے داریاں انجام دیں۔ ان میں پاکستان ایئر فورس کی بنیاد رکھنے والے پیٹرک ڈیسمنڈ کیلیگن اور میرون مڈل کوٹ، اداکارہ پیشنس کوپر، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید اور چوتھے چیف جسٹس اے آر کارنیلئس، کرکٹر ڈنکن شارپ شامل ہیں۔) اینگلوانڈینز افسر جب تک پاکستان ریلوے میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے، ریلوے منافع بخش ادارہ رہا۔ لیکن ہم نے وطن عزیز میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ یہ لوگ اب دوسرے ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

حال ہی میں ہالینڈ کی ممبر پارلیمنٹ مارئل پال نے اپنے خطاب میں پاکستان خصوصا ً کراچی کا ذکر کیا ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ ’’میرے والد ہیسانتھ پال کراچی میں صدر کے علاقے میں گزارے گئے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام یاد کرتے رہے۔ گھر میں آج بھی والدہ پاکستانی کھانے پکاتی ہیں جو ہم سب شوق سے کھاتے ہیں۔‘‘وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میرے لیے دوسرا گھر ہے، رشتہ داروں کے ساتھ رابطے موجود ہیں۔ پاکستان کے لیے کچھ کر سکی تو ضرور کروں گی‘‘۔

میرے جوانی کے کئی اینگلو انڈین دوست تھے، جو تمام کے تمام بیرون ملک شفٹ ہو چکے ہیں، اس مرتبہ ’’امریکا یاترا ‘‘ کے دوران ایک دوست سے ملاقات بھی ہوگئی، اُن کا نام جنید ہے جو 3دہائیاں قبل اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان چھوڑ آئے تھے، اُن سے یونہی گپ شپ ہوئی تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ نے پاکستان کیوں چھوڑا، تو وہ اپنی یادوں میں کھو گئے اور کہا کہ وہ جب لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں رہتے تھے تو پاکستان میں بڑا ساز گار ماحول تھا، جنید نے بتایا کہ ’میں پندرہ یا سولہ سال کا تھا جب میرے والدین نے نوے کی دہائی میں پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت ان کے والد کے زیر انتظام ایک چرچ پر حملہ ہوا تھا‘‘۔’اس واقعے کے بعد والدین نے فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں رہنا مشکل ہو چکا ہے۔

پہلے میرے والد برطانیہ آئے اور پھر انھوں نے ہماری والدہ اور ہم تین بہن بھائیوں کو بھی برطانیہ بلا لیا۔‘‘جنید کے والد انھیں بتایا کرتے تھے کہ لاہور میں ان کی دوستی مسلمانوں سے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی میں شاید بین الاقوامی صورتحال، افغانستان میں سابق سوویت یونین اور امریکا کی جنگ کے پاکستان کے معاشرے پر اثرات مرتب ہوئے۔‘‘

خیر یہ ایک لمبی گپ شپ تھی،یہاں یہ باتیں بتانے کا مقصد ہے کہ قائد اعظم جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے ہم وہ نہ بنا سکے۔ ہم نے تمام اُن افراد اور کمیونٹیزکو یہاں سے بھگا دیا جو تھوڑے لبرل اور روشن خیال تھے، جو شخصی آزادی کے قائل تھے۔

اور پھر یہاں ہم نے 80 اور 90کی دہائی میں افغان جنگ کو لے کر مذاہب کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، شاید تاریخ اُسے کبھی نہ بھلا پائے گی، یہ شاید اُسی کے اثرات ہیں کہ یہاں سے مخصوص طبقات کو بیرون ملک جانے پر نہ صرف مجبور کر رہے ہیں بلکہ اس قدر پرتشدد ہوچکے ہیں کہ ہمیں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونا پڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ قائد کا پاکستان نہیں ہے، قائد اعظم کے بقول ریاست کا کوئی مذہب اور نسل نہیں ہوتی، وہ سب شہریوں کی ہوتی ہے، لیکن ہم اُس کے اُلٹ چل رہے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنما اور دانشور قائد اعظم کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کے سیاسی و معاشی نظریات کو پسند نہیں کرتے۔

ہم تو اپنے پرچم میں موجود سفید رنگ کی بے حرمتی کررہے ہیں، حالانکہ قائد کے دور میں وزیر قانون ہندو تھے۔ وزیر خارجہ قادیانی تھا۔ ان کے مشاورت کاروں میں مسیحی اورہندو جب کہ مختلف مسالک کے مسلم رہنما شامل تھے، اس کے برعکس پاکستان میں وہ حکمران بن گئے جن کی قائد محترم شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے، اُن میں سرفہرست جنرل ایوب تھے جو 13سال پاکستان کا حشرنشر کرتے رہے۔

ان کے بعد جنرل یحیٰ خان نے تو ملک کو دولخت کرادیا ۔ لہٰذاآج کا قائد کا یوم پیدائش ہمیں یہ سبق ضرور دیتا ہے کہ پاکستان اس وقت ہی ترقی کرے گا جب قائد کی گیارہ اگست کی تقریر کو آئین کا حصہ بنایا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔