16دسمبر کاپیغام

جمیل مرغز  جمعـء 24 دسمبر 2021
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

16دسمبرپاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن‘پاکستان  دولخت ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دل چاہتا ہے کہ ذرا تاریخ کے صفحات پلٹ کردیکھیں کہ ہمیں کن غلطیوں کی سزاملی۔ ہماری غلط پالیسیاں 16دسمبر 1971کے سانحے کے بعد بدل جا نی چاہیے تھیں لیکن کچھ بھی نہ بدلا ‘ قدرت نے ہمیں ایک اور وارننگ دینے کے لیے پھر 16دسمبر کا انتخاب کیا‘ 16دسمبر 2014کے دن کوقدرت کی طرف سے ایک اور وارننگ سمجھنا چاہیے ‘خدا کرے اب بھی ہمیں عقل آجائے اور اگر پہلا نہیں تو دوسرا 16دسمبر ہماری زندگی بدل دے ‘شاید یہ احساس ہوجائے کہ16دسمبر کو APSکے بچوں کے قتل عام کا واقعہ اچانک نہیں ہوا بلکہ بقول قابل اجمیری ،

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

امریکی مصنف اور سابقہ صدر کے ایڈوائزر بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ ’’یہ ہمارا حق ہے کہ افغانستان میں ہماری مرضی کی حکومت ہو‘ہم نے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر خطرات مول لیے تھے اور ہم یہ اجازت کبھی نہیں دیں گے کہ افغانستان پہلے کی طرح ہوجائے اور وہاں پر بھارتی یا روسی اثر و رسوخ ہو اور وہ ہمارے علاقوں پر دعوے کریں۔

افغانستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگی ‘جو اسلامی نشاۃ ثانیہ کو دوبارہ اجاگر کرے گی‘‘۔ افغانستان فتح کرتے کرتے ‘ پورا ملک خون میں نہا گیا‘ پوری دنیا کو مسلمان بنانے، افغانستان اور روس کو فتح کرنے کا نتیجہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

9/11کے بعد امریکا بدل گیا‘امریکا نے پرانے قوانین کو چھوڑ کر نئے قوانین بنائے ‘قومی سلامتی کو سب امور پر ترجیح دی ‘وہاں پر ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر بنا اور امریکا کی سیکیورٹی ان کے حوالے کر دی گئی۔ہوم لینڈ سیکیورٹی کو بہت زیادہ اختیارات دیے گئے ‘پورے امریکا کا ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوا‘اطلاعات اور خفیہ اطلاعات کو کمپیوٹرائز کیا گیا۔

ویزوں کے لیے معیار بنایا گیا ‘ملک کے اندر اور بیرون ملک پروازوں کے اعداد و شمار کے سینٹر بنے‘ تیزی سے حرکت میں آنے والی (Quick Response Force) بنائی گئی ’ پولیس‘فوج اور عدلیہ تینوں کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کا حصہ بنایا گیا ‘عوام کو یہ یقین دلایا گیاکہ یہ ادارہ آپ کی حفاظت کے لیے بنایا گیا ہے ‘آج اس ادارے کو 21سال ہو گئے ہیں‘ 9/11کے بعد امریکا میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا ‘اسی طرح برطانیہ سمیت دوسرے یورپی ممالک نے بھی ادارے بنائے ‘لندن میں 9/11کے بعد دہشت گردی کا صرف ایک قابل ذکر واقع ہوا ‘یہ 7جولائی 2005کو لندن میں پیش آیا اس لیے اس کو 7/7 بھی کہتے ہیں۔ امریکا اور دوسرے یورپی ممالک کو تو صرف القاعدہ سے خطرہ تھا لیکن پاکستان تو خطرات کا کوہ قاف بن چکا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی انتہائی اہم اور حساس مقامات پر دہشت گرد حملے ہوئے ‘ان حملوں میں کروڑوںروپے کا سامان اور ہزاروں جوان شہید ہوگئے‘ اس کے علاوہ اسکولوں ‘مارکیٹوں ‘اسپتالوں‘ زیارتوں اور عوامی مقامات پر لا تعداد دہشت گرد حملے ہوئے اور تقریباً55ہزار شہری ان حملوں میں شہید ہوئے‘آرمی پبلک اسکول کے واقعے کا تو ذکر ہی دل دہلا دیتا ہے‘ ہماری معیشت تباہ ہوگئی اور عوام ذہنی مریض بن گئے۔ یہ مصیبت ہم نے خود مول لی تھی ‘کسی نے ہمارے گلے میں زبردستی نہیں ڈالی جیسا کہ بعض سیاسی رہنماء دعوے کرتے رہے کہ یہ پرائی جنگ ہے جس میں ہم نے خود کو پھنسالیا‘ نہیں جناب یہ ہماری اپنی جنگ ہے اور ہم نے ڈالر اور ریال لے کر اس بلا کو اپنے گھر میں جگہ دی ہے۔

کیا ہمیں یاد نہیں کہ جب1981میں مصری صدر انور سادات کے قتل کے بعد ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا۔امریکیوں نے بھی عالمی جہادی نیٹ ورک قائم کرانے میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ‘سی آئی اے کے مالی تعاون سے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں مخصوص اذہان کی بھرتی کرائے گئے ‘ ایسی کتابیں شایع کرائی گئیں جن میں بچوں کو من مرضی کی جہادی تعلیم اور کمیونسٹوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی۔ایسی ہی ایک کتاب میں ایک افغان بچہ ایک روسی فوجی کی آنکھیں نکالتے ہوئے اور ٹانگیں کاٹتے ہوئے دکھایا گیا ہے ‘ افغان باشندوں کو بلا روک ٹوک ویزے جاری کیے جاتے تھے۔

سوویت افواج کے افغانستان سے انخلاء کا آغاز ہوا تو امریکی رویے میں سرد مہری آنا شروع ہو گئی ‘گرم جوشی لا تعلقی میں بدل گئی۔امریکی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس چلے گئے ‘ہزاروں عرب مجاہدین کے لیے واپسی کے دروازے بند ہو چکے تھے ‘جنھوں نے واپس گھروں کو لوٹنے کی جسارت کی ‘انھیں عرب حکومتوں نے نہ صرف حراست میں لیا بلکہ عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا‘یہ مجاہدین پاکستان کے مستقل شہری بن گئے۔

9/11کے بعد ایک بار پھر میدان سجا‘سابق مجاہدین تازہ دم کمک کے ہمراہ امریکا اور اس کے اتحادی پاکستان کے ساتھ معرکہ آرائی فرمانے لگے‘ یہ وہ جن ہے جس کو بوتل میں بند کرنے کی ذمے داری صرف پاکستان کی نہیں بلکہ امریکا سمیت عرب ممالک کی بھی ہے۔

ان کے بھرپور تعاون کے بغیر اس عفریت پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا ‘شدت پسندی کے مقابلے کے لیے پاکستان کو علاقائی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس میں تمام ممالک اور ملکی ادارے ایک صفحے پر ہوں‘امریکا‘عربوں‘ افغانوں‘ ایران ‘بھارت ‘روس اور چین کے تعاون کے بغیر اس خطے میں امن کا قیام ممکن نظر نہیں آتا ‘ سعودی عرب اور امریکا نے شام کی حکومت کے خلاف اپنی پالیسیوں کی وجہ سے داعش کا عفریت بھی پیدا کر دیا ہے ‘جو آج افغانستان اور پاکستان تک پہنچ گیا ہے۔انتہاپسندی اور دہشت گردی ختم کرنے کے لیے نیم دلانہ اقدامات سے کام نہیں چلے گا ‘اس کے لیے پورے سماج کو شامل کرکے ملک کے بنیادی نظریات‘نظام تعلیم ‘معاشی اور ثقافتی نقطہ نظر کو تبدیل کرنا ہوگا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔