حافظ، ڈاکٹر طاہر شمسی تمہاری یاد ستاتی ہے

م ش خ  جمعـء 24 دسمبر 2021
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

امن اور محبت کا درس دینے والے حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی اپنے مریضوں کو صبر کی تلقین کرتے کرتے ہم سے جدا ہوگئے، طاہر شمسی تو وہ شخصیت تھے کہ ان کو خون کے کینسر کے مریض دامن اٹھا کر ان کی عزت اور مرتبہ کی دعا کرتے تھے، عوامی سطح پر جو انھیں پذیرائی ملی وہ اس قابل تھے کہ ان کے کارنامے ہائے نمایاں تھے۔ 16 دسمبر دوپہر 12 بجے ان کے ادارے NIBD میں ان سے ملاقات ہوئی، میں اپنی صاحبزادی کی شادی کا کارڈ دینے گیا تھا، مسکرائے اور کہا کہ رب تعالیٰ ہماری بیٹی کو شاد و آباد رکھے۔

مریضوں کی OPD میں مصروف تھے، خصوصی طور پر اپنے کمرے سے اٹھ کر باہر آگئے اور پندرہ منٹ راقم سے بات کرتے رہے۔ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ ان کا پسندیدہ اخبار تھا، جب بھی راقم کا کالم چھپتا تو وہ کہتے کہ آج آپ نے کالم نہیں بھیجا، میں بھیج رہا ہوں، کیا یاد کرو گے، ادب کے معاملے میں بہت باادب تھے۔ جوش ملیح آبادی، استاد قمر جلالوی اور پروین شاکر ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ راقم کی ان سے بہت علیک سلیک تھی۔

کئی صحافی حضرات کو خون کے حوالے سے ان کے پاس لے کر گیا، بڑی محبت کا ثبوت دیتے، اندرون سندھ کے ایک مقامی روزنامہ کے صحافی کی صاحبزادی تھیلسیما کا شکار ہوئی تو میں ان کے پاس لے کر گیا، ان صحافی کی آنکھوں میں بچی کے حوالے سے آنسو آگئے، مسکرائے اور ان سے کہا یار! کمال کرتے ہو، ابھی تو مجھے اور آپ کو اس کی شادی کرنی ہے اور آپ دل چھوٹا کیوں کر رہے ہو؟ کینسر کے مریض اداس رنگ لیے ان کے پاس آتے اور اپنے لبوں پر مسکراہٹ سجائے خوشی سے ہم کنار ہوکر جاتے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی قدر و منزلت کا نمونہ تھے۔ ان کی شخصیت واجب الاحترام تھی۔ بروز جمعہ کبھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی، میں نے ان سے اپنی ایک ذاتی مشکل کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا م ش خ! زندگی جہاں لے کر جاتی ہے وہاں سکون سے چلے جائیں، رب کے بنائے ہوئے نقشے سے الجھنے کی بجائے سمجھنے کی کوشش کریں۔ آسانیاں آپ کے قدموں میں ہوں گی۔ ان کی اس بات نے مجھے بہت دلاسا دیا اور رب کے حکم سے وہ مشکل بھی آسان ہوگئی۔ امن و محبت کا درس دینے کے شہزادے تھے اور میڈیکل کے حوالے سے شہ سوار تھے دیانت اور تن دہی سے اپنا کام کرتے، آبرو مندانہ گفتگو کے عادی تھے۔

ان کا کہنا تھا زمانے سے گلہ نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو خوب صورتی سے بدلو، اس لیے کہ پاؤں کو غلاظت سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جوتے استعمال کریں، سارے شہر میں قالین نہیں بچھائے جاسکتے۔ مصنف خلیل جبران کے بھی بہت بڑے فین تھے۔ الفاظ کی ادائیگی تو کوئی ان سے سیکھتا۔ راقم ان سے بہت کچھ سیکھا کرتا تھا، وہ ادب کے شہزادے تھے۔

ان کا تعلق ایک بہت ہی معزز گھرانے سے تھا اور اردو کے حوالے سے شہ سوار اردو تھے، بہت زندہ دل انسان تھے دوپہر ان سے ملاقات ہوئی چند دن اسپتال میں رہے اور پھر رب کی طرف لوٹ گئے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا بھائی مجھ سے جدا ہو گیا ہے۔ زندگی میں کافی میتیں دیکھیں مگر حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی کا جنازہ اپنی مثال آپ تھا۔ حد نگاہ سر ہی سر تھے، ان کی نماز جنازہ نجم مسجد ٹیپو سلطان میں ادا کی گئی۔

مرحوم کی نماز جنازہ میں مختلف شعبہ زندگی کے افراد نے شرکت کی۔ انھیں آر سی ڈی ہائی وے پر واقع یوسف پورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔  ڈاکٹر طاہر شمسی کا شمار ان ہیماٹولوجسٹ میں ہوتا تھا ، جن کی خدمات دنیا میں معترف تھیں، وہ کسی بھی شہرت کے محتاج نہیں تھے۔ وہ برین ہیمرج کے باعث ایک بڑے مقامی اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں جمعرات کی رات ان کا آپریشن کیا گیا۔

ڈاکٹرز نے ان کی حالت بہت تشویش ناک بتائی تھی۔ ڈاکٹر حافظ طاہر شمسی نے کورونا کے حوالے سے پلازمہ سے علاج کا طریقہ بتایا تھا۔ اس علاج کی وجہ سے بے شمار مریضوں کو پلازمہ تھراپی کے باعث کورونا سے نجات ملی۔ وہ 27 سال قبل پاکستان میں بون میرو کے آغاز کے لیے امریکا گئے تھے، انھوں نے 1988 میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 2011 میں خون کی بیماریوں کے حوالے سے امراض خون کے لیے اپنا ادارہ قائم کیا، NIBD میں ایٹم سیل پروگرام کے ڈائریکٹر اور برطانوی رائل کالج آف پیتھالوجسٹ کے فیلو بھی رہے۔

1995 میں وہ پہلے اور آخری ڈاکٹر تھے جنھوں نے بون میرو ٹرانسپلانٹ روشناس کرایا اور لیاری کے نوجوانوں کا علاج کرایا۔ ان کی میت میں، میں نے کئی بلوچ حضرات کو شامل دیکھا۔ اب تک انھوں نے تقریباً650 بون میرو کیے۔ بین الاقوامی طور پر 100 تحقیقی مقالے تحریر کیے۔ پنجاب میں صوبائی حکومت ان سے تربیت لینے کے حوالے سے خدمات حاصل کرچکی ہے۔ ان کی تحقیقاتی تحریریں بین الاقوامی جرائد میں شایع ہو چکی ہیں۔

2016 میں ان کی اعلیٰ خدمات کے عوض لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز سے نوازا گیا۔ امریکا میں غیر سرکاری تنظیم ڈاؤ گریجویٹ ایسوسی ایشن نے یہ ایوارڈ دیا تھا۔ مریض اور ان کے لواحقین ان کو دعا میں یاد رکھتے تھے۔ وہ اعلیٰ و ارفع شخصیت کے مالک تھے۔ حافظ ہونے کے ناتے ان کی تلاوت قابل تعریف تھی۔ رب ذوالجلال ان پر بہت مہربان تھے۔ بحیثیت ڈاکٹر کے پروردگار عالم نے انھیں اپنی محبت سے بہت نوازا تھا۔

مملکت خداداد ایک اچھے ہیرے سے محروم ہوگئی۔ ان کے یوم وصال پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ راقم کی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتیں، سیاست سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہمیشہ ’’وطن رہے سلامت‘‘ کی دعا کیا کرتے تھے۔

وہ محب وطن پاکستانی تھے اور اپنے کینسر کے مریضوں سے جنون کی حد تک محبت کیا کرتے تھے۔ ان سے ایک دفعہ میں نے پوچھا طاہر بھائی! آپ کو کون سی شخصیت جو پاکستانی ہو پسند ہے؟ تو مسکرا کر جواب دیتے ہوئے کہا، میرا رب اور میرے حضور رسول اکرمؐ۔ اس کے بعد مجھے پاکستانی شخصیت میں قائد اعظم بہت پسند ہیں کہ انھوں نے ہمیں ایک خودمختار ملک سے نوازا اور آج بحیثیت مسلمان ہم عزت دار ملک میں رہتے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے ایک شعر انھیں بہت پسند تھا:

خلوصِ دل سے ہو سجدہ تو اس سجدے کا کیا کہنا

سرک آیا وہیں کعبہ جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

وہ صراط مستقیم کو اپنا آئیڈیل کہا کرتے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے جو خون کے کینسر میں مبتلا مریض ان کے نماز جنازہ میں آئے تھے انھیں زار و قطار روتے ہوئے دیکھا۔ مریض حضرات وہیل چیئر پر ان کی نماز جنازہ میں آئے ہوئے تھے۔ حافظ ڈاکٹر طاہر شمسی ادب پرور شجر تھے۔

تہذیب اور شائستگی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جب پاکستان میں تھے اور صاحب فراش تھے تو ان کا بون میرو انھوں نے کیا تھا، تکبر نام کی کوئی چیز ان میں نہیں تھی۔ اپنے اسٹاف سے بھی بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹر تھے، مگر پاکستان سے محبت کا رشتہ مرتے دم تک قائم رکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔