کامیاب زندگی کی شاہ کلید 

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 24 دسمبر 2021
مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پر شکر بجا لاتا اور تکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ فوٹو : فائل

مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پر شکر بجا لاتا اور تکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ کا صد ہزار بار شُکر ہے کہ اس ذات نے ہمیں انسان بنانے کے بعد ایمان جیسی نعمت عطا فرمائی۔

اہل ایمان کی پہچان یہی ہے کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان کے ساتھ شریعت اسلامی کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ہر موقع پر ایسی باتیں سکھلائی ہیں جن پر عمل کرنا دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا باعث ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی درج ذیل حدیث مبارک ہے جس میں آپ ﷺ نے کامیاب ہونے کی پانچ قیمتی نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کون ہے جو مجھ سے چند نصیحتیں سیکھے تاکہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں تک بھی پہنچائے اور وہ بھی ان پر عمل کر سکیں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ نصیحتیں شمار کرائیں:

1:شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو بچاؤ تو سب سے زیادہ عبادت گزار بندے بن جاؤ گے۔

2:اﷲ کی تقسیم پر دل و جان سے راضی ہو جاؤ تو سب سے زیادہ غنا حاصل ہوجائے گا یعنی اﷲ تمہیں (لوگوں کے مال و منصب سے) بے نیازی کی دولت نصیب فرمائیں گے۔

3:اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا معاملہ کرو تو (کامل صفات والے اچھے اور سچے) مومن بن جاؤ گے۔

4:صحیح معنوں میں مسلمان تبھی کہلاؤ گے جب دوسرے مسلمان کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔

5:زیادہ (فضول باتوں پر) کھل کھلا کر ہنسنے سے بچو کیوں کہ (بے فکری کی وجہ سے) زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (جامع الترمذی)

محرمات سے بچنا:

شریعت اسلامیہ میں جن کاموں سے روکا گیا ہے انہیں ’’منہیات‘‘ اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں ’’مامورات‘‘ کہا جاتا ہے۔ منہیات کو کرنا اور مامورات کو چھوڑنا حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اسی حرام سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار قرار دیا گیا ہے۔

اس لیے عقائد اسلامیہ کو اپنانے کے بعد فرائض و واجبات کو ادا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہ اس وقت تک کامل عبادت نہیں بن سکتی جب تک گناہوں کو چھوڑ نہ دیا جائَے اور جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے سچے دل سے توبہ نہ کر لی جائے۔ محرمات سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ بعض محرمات کا ارتکاب نیکیوں کے اجر و ثواب کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے بڑا عبادت گزار وہی ہوگا جس کی عبادات محفوظ رہیں اور عبادات اسی کی محفوظ رہیں گی جو گناہوں سے خود کو بچائے گا۔

عوام الناس کی بنیادی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو ادا نہیں کرتے اور نفلی عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو شخص فرض نماز کو چھوڑ کر نوافل میں مشغول ہو جائے، زکوٰۃ، عشر صدقہ الفطر اور قربانی کو چھوڑ کر رفاہی کاموں میں اپنے پیسے کو خرچ کرے، فرض روزوں کو چھوڑ کر نفلی روزوں کا اہتمام کرے، فرض حج کو چھوڑ کر نفلی عمرے ادا کرتا رہے۔ نفلی عبادات کا ثواب اپنی جگہ لیکن فرائض و واجبات کو چھوڑنے کا گناہ اپنی جگہ۔

چند حرام کام:

کفر، شرک، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینا یعنی ارتداد، دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا، جھوٹ، ناحق تہمت، سود، رشوت، حسد، غیبت، چغل خوری، کسی کا ناحق مال کھانا، فحاشی و عریانی کو عام کرنا، تکبّر، غرور، ریاکاری، فخر و مباہات، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، زنا، لواطت، بدنظری، ظلم، گالیاں بکنا، کسی پر تشدد کرنا، مُردوں کو گالی دینا، احسان جتلانا، بدگمانی، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتدر شخصیات کو بُرا کہنا، قطع رحمی کرنا، بول چال چھوڑنا، بلاوجہ جاسوسی کرنا، دھوکے بازی، خیانت، چوری، ڈکیتی، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفت گو کرنا، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشُکری ہونا، مرد کا اپنی بیوی کے مالی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا، اسراف یعنی فضول خرچی، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، کاہن ( جسے آج کی زبان میں دست شناس یا نجومی کہا جاتا ہے) کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا، جادو، اﷲ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا، جھوٹی بات پر قسم کھانا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بد عہدی کرنا، میت پر نوحہ کرنا، بین کرنا، گریبان چاک کرنا، رخسار پیٹنا، قبروں کی پامالی کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا، شراب پینا، چرس پینا، افیون پینا، بھنگ پینا، کسی کو نشہ پلانا، گانا، عشقیہ غزلیں، موسیقی، فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور سننا، مرد کا سونا استعمال کرنا، خواتین کا بے پردہ ہونا، شعائر دین کا مذاق اڑانا وغیرہ ۔

اﷲ کی تقسیم پر راضی رہنا:

اﷲ رب العزت نے جتنا رزق مقدر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے لیے جائز اسباب کو اختیار کرنے کا حکم شریعت خود دیتی ہے۔ جو مل جائے اس پر شُکر ادا کیا جائے کیوں کہ جو چیز ملی ہے وہ محض اﷲ کے فضل سے ملی ہے اور اسباب کی توفیق کا مل جانا بھی اﷲ کا فضل ہے۔ مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پر شُکر بجا لاتا ہے اور تکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ وہ کسی دوسرے سے حسد نہیں رکھتا، طمع، لالچ، حرص و ہوس سے خود کو بچاتا ہے۔ ہر حال میں اﷲ سے راضی رہتا ہے۔ کوئی نعمت مل جائے تو شُکر اور کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرتا ہے۔

بندہ شاکر و صابر کب بنتا ہے؟

حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے دادا عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں اﷲ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیار کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امور میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اﷲ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اﷲ کا شُکر ادا کرے تو ایسے شخص کو اﷲ پاک صابر و شاکر لکھ دیں گے۔ (جامع الترمذی)

ہمسایوں کے حقوق کی پاس داری:

ادیان عالم میں اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔ اور اسے کامل ایمان والے مومن کی صفت قرار دیا گیا ہے۔

ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسیوں کے (حقوق) کے بارے میں میرے پاس جبریل امینؑ اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث (حق دار) قرار دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری)

پڑوسیوں کے بنیادی حقوق:

حضرت عمرو بن شعیبؓ والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتا ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ آپ سے جانیں یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔

اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پرسی کی جائے۔ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے تو ان کو مبارک باد دینا۔ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔ جب ان کے ہاں فوتگی ہو جائے تو (بہ شرطِ صحتِ عقائد) اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ (شعب الایمان للبیہقی)

مسلمان بھائیوں کا خیال:

حدیث مبارک میں صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کے لیے اس چیز کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے کہ بندہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے۔ چناں چہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث ہے کہ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)

اسلام کی تعلیمات کا مقابلہ دنیا کا کوئی دین نہیں کر سکتا۔ بات کو اتنے خوب صورت پیرائے میں بیان کر دیا ہے کہ ہر انسان کو بہ آسانی سمجھ میں آجائے۔ جو تمہیں پسند ہے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو۔ بندے کی تمام پسندیدہ چیزوں کا خلاصہ دو چیزیں ہیں: عزت اور راحت۔ بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان معاشرے میں عزت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے اور بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان راحت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ بس اپنی زندگی کے ہر موڑ پر دیکھتے جاؤ کہ جو تمہیں پسند ہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔ اگر آج کا معاشرہ اس اصول پر آجائے فساد کی جڑیں ہی اکھڑ جائیں۔

زیادہ ہنسنے سے دل مردہ:

حدیث مبارک میں بے فکری اور غفلت کی وجہ سے کھل کھلا کر ہنسنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مردہ دلی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ خوش ہونے کی بات پر خوش ہونا الگ بات ہے لیکن آخرت سے غافل ہو کر، انجام سے بے فکر ہو کر قہقہے لگا کر زور سے ہنسنا الگ بات ہے۔ اﷲ کے رسول ﷺ کے شمائل و اوصاف میں ہنسنے کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی اتنے زور سے (قہقہہ لگا کر) ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ کا حلق مبارک نظر آئے۔(صحیح البخاری)

ایک حدیث مبارک میں مردہ دلی کے ساتھ اس بات کا اضافہ بھی ملتا ہے کہ زیادہ قہقہے لگانے سے چہرے کا نور چھن جاتا ہے۔ انسان کی بات بے وقعت ہوجاتی ہے، لوگوں کے دلوں میں عزت ختم یا کم ہوجاتی ہے، سنجیدگی اور متانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ باوقار شخصیت کا نقش مٹ جاتا ہے جس کا لازمی نتیجا یہ نکلتا ہے کہ انسان کی معاشرے میں حیثیت کم ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہنسنے کے موقع پر ہنسنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ راتوں کو تنہائیوں میں بندہ اﷲ کے حضور رونا بھول جائے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔