امن و سلامتی

مولانا فخرالدین کھوسو  جمعـء 24 دسمبر 2021
اسلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں،  فوٹو : فائل

اسلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں، فوٹو : فائل

اسلام کے معنی امن و سلامتی کے ہیں، یہی پیغام تمام مسلمانوں پر بہ حیثیت ’’بہترین امت‘‘ عام کرنا لازم ہے۔ اسلام نے حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی فرض قرار دیا ہے اور ان کی طرف بارہا تاکید سے مختلف انداز اور اسلوب میں توجہ مبذول کرائی ہے اور ان پر اجر و ثواب کی بشارت سنائی ہے نیز ان حقوق کی عدم ادائی پر وعید اور عذاب کی تنبیہ کی ہے۔

اسلام نے مختلف عنوانات سے انسان کو انسانیت، امن اور بھائی چارہ کا پیغام دیا ہے کہ تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کی طرح ہیں کہ جب جسم کا کوئی عضو کسی طرح کی تکلیف محسوس کرتا ہے تو دیگر تمام اعضاء اس کی تکلیف سے مضمحل ہوجاتے ہیں، کیوں کہ اصل اور روح سب کی ایک ہے۔ اِسی طرح انسان کی اصل ایک ہونے کی وجہ سے ایک انسان کی تکلیف کو دوسرے انسان کے لیے اضطراب کا باعث بننا چاہیے۔ اور اگر ایک انسان دوسرے انسان کے دکھ اور تکلیف سے بے نیاز ہے تو پھر اس کا نام جو بھی ہو، وہ درد مند انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔

انسان کی تکریم کا ایسا عالم گیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی اور مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا تھا۔ اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہل ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علم بردار قرار دیتا ہے، اسلام قتل و خون ریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور جُھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا اور ان افعال قبیحہ کو جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے ’’صاحب ایمان‘‘ کی علامت یہ قرار دی ہے کہ اس سے کسی انسان کو بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کے جان مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘

ایک اور موقع پر ظلم و تنگ نظری سے بچنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ظلم سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے، نیز بخل و تنگ نظری سے بچو! اس عمل نے تم سے پہلے بہتوں کو ہلاک کیا ہے اسی مرض نے ان کو خون ریزی اور حرام کو حلال جاننے پر آمادہ کیا۔‘‘ (مسلم)

نبی کریم ﷺ نے اپنی سیرتِ مبارکہ اور اپنے طرزِ عمل سے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کے ماحول کو فروغ دیا اور اس کی معاشرتی ضرورت و اہمیت پر بھی زور دیا جس کے نتیجے میں مذہبی، لسانی اور علاقائی منافرت اور تنگ نظری کا وجود پاش پاش ہوگیا۔

معاشرے میں موجود دیگر مذاہب اور تہذیبوں کے لوگوں کے ساتھ سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں ایک مسلمان کو کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے اور غیر مسلموں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے چاہییں کہ جس سے معاشرے میں کسی قسم کی مذہبی منافرت نہ پھیلے اور معاشرہ انسانی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی مضبوط بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتا رہے۔۔۔۔؟

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے، وہاں غیر مسلم آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا گیا۔ حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجا گھر منہدم نہیں کیے جائیں گے، ان کا وہ قصر نہیں گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ان کے ناقوس اور گھنٹے بجانے پر پابندی نہیں ہوگی، ان کے تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے پر ممانعت نہیں ہوگی۔

اسی معاہدے میں یہ بھی تھا کہ یہاں کے ذمّیوں کو فوجی لباس کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی بہ شرط یہ کہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ کا عہد پوری دنیائے حکم رانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔

ملک کی ترقی و خوش حالی، امن و امان کی بحالی، داخلی سلامتی، خارجی سیاست، پیداوار میں اضافہ، ایجادات و اکتشافات اور علمی تحقیقات کے لحاظ سے یہ عہد اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے بعد چشم فلک نے اس سرزمین پر اتنا خوب صورت عہد حکومت دوبارہ نہیں دیکھا، جس میں ہر شخص خود کو محفوظ، ترقی یافتہ، خوش حال اور پرسکون محسوس کرتا تھا اور مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ بھی مکمل رواداری ملحوظ رکھی جاتی تھی۔

آپؓ کے عہد میں بیت المقدس فتح ہوا تو خود حضرت عمر فاروقؓ کی موجودی میں وہاں کے لوگوں سے یہ معاہدہ ہوا: ’’یہ وہ فرمان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا کہ ان کا مال، گرجا، صلیب، تن درست و بیمار ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہیں۔ اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ہی ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔

مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہیں کیا جائے گا، ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان مال لے کر یونانیوں کے ساتھ منتقل ہونا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں اور صلیبوں کو امن ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائے اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ کا، خلفاء کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے بہ شرط کہ وہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔‘‘

( بہ حوالہ: ’’الفاروق‘‘ از علامہ شبلی نعمانی)

اسی طرح حضرت عثمان غنیؓ اور امیرالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے دور خلافت کے سنہری اور شان دار واقعات سے تاریخ عالم کی کتب بھری ہوئی ہیں۔ یہ تو خیر خلفائے راشدینؓ کا عہد تھا اس سے شان دار اسلامی حکم رانی کا نمونہ ملنا مشکل ہے۔ لیکن بعد کے ادوار میں بھی مسلم حکم رانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور مروت کی اس روایت اور نظام امن کے اس سلسلے کو باقی رکھا اور تاریخ حکم رانی میں اس کی زرّیں مثالیں قائم کیں۔

’’تاریخ ہند‘‘ کے مصنف رام پرساد کھوسلہ لکھتے ہیں: ’’اورنگ زیب نے ملازمت کے لیے اسلام کی شرط کبھی نہیں لگائی۔ بادشاہ کو اسلام کا محافظ ضرور سمجھا جاتا تھا مگر غیر مسلم رعایا پر کوئی جبر اور دباؤ نہیں تھا، بابر سے اورنگ زیب تک مغلوں کی تاریخ تنگ نظری اور فرقہ پرستی سے پاک ہے۔‘‘

الغرض! اسلامی حکم رانی کی پوری تاریخ امن و امان اور رواداری کے واقعات سے لبریز ہے۔ دنیا کی کوئی تاریخ ایسی شان دار مثالیں پیش نہیں کرسکتی۔ آج ضرورت ہے کہ دنیا کی حکومتیں اس سے سبق حاصل کریں اور ان قابل تقلید نمونوں کو پیش نظر رکھ کر ایک خوب صورت سماج پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تنگ نظری، مذہبی و لسانی تعصب اور فرقہ واریت سے دُور رہیں اور اپنے اندر وہ اخلاص، ایثار، مروّت اور کشادہ نظری پیدا کریں جو اسلام کو مطلوب ہیں۔ اﷲ تعالی ہمیں اپنے نیک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔