احتجاج اور الزامات کی سیاست میں تیزی

عارف عزیز  منگل 11 فروری 2014
سندھ فیسٹیول کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ۔ فوٹو : فائل

سندھ فیسٹیول کی حمایت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ۔ فوٹو : فائل

کراچی: گذشتہ ہفتے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان مختلف معاملات پر احتجاج کرنے اور اپنی قیادت سے اظہارِ یک جہتی کے لیے سڑکوں پر نظر آئے۔

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، آل پاکستان مسلم لیگ اور قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کی سرگرمیاں نمایاں رہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم کے خلاف کشمیری عوام سے یک جہتی کا دن مناتے ہوئے مختلف تنظیموں اور مذہبی جماعتوں نے بھی ریلیاں نکالیں، جب کہ سندھ فیسٹیول سے متعلق تقریبات بھی مختلف حلقوں میں زیرِ بحث رہیں۔

دنوں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما حیدر عباس رضوی نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایم کیوایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کا 10 واں واقعہ تین فروری کو پیش آیا، جب ایم کیو ایم کے ایک کارکن محمد سلمان کو کورنگی کراسنگ سے باوردی پولیس اہل کاروں نے گرفتار کیا اور ان کی لاش چار فروری کو ملیر ندی کے علاقے سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ محمد سلمان پر حراست کے دوران بدترین تشدد کیا گیا اور ان کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی۔

حیدرعباس رضوی نے کہا کہ ایم کیوایم کا مؤقف یہ رہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جرم میں ملوث ہو تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ جمعے کے دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر عباس رضوی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ایم کیو ایم نے کراچی میں جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی کل بھی حمایت کی تھی اور آج بھی کرتی ہے، لیکن آپریشن کی آڑ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتا اور ان کا ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا گذشتہ ایک سال کے دوران ایم کیو ایم کے 45 کارکن لاپتا ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر عامر خان، سینیٹر نسرین جلیل اور دیگر راہ نما بھی موجود تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے ہفتے کے دن یوم سوگ منایا گیا۔ ایم کی اپیل پر پبلک ٹرانسپورٹ اور کاروباری مراکز بند رکھے گئے۔ تاہم دوپہر دو بجے کے بعد کاروبارِ زندگی بحال ہو گیا۔ اسی شب ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جس پر ایم کیو ایم کے راہ نما اور کارکنان سراپا احتجاج بن گئے۔ ایم کیو ایم کے کارکن فہد عزیز کی بارات شاہ فیصل کالونی پل سے گزر رہی تھی، جسے پولیس نے روکا اور دولہا کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ دوران حراست تشدد کا نشانہ بنائے جانے پر فہد عزیز کی حالت بگڑ گئی، جنہیں طبی امداد کے لیے نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ فہد عزیز کی گرفتاری کے فوری بعد باراتی پریس کلب پہنچے، جہاں اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے فہد عزیز کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس مبینہ تشدد کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چار پولیس اہل کاروں کو معطل کر دیاگیا۔ اس واقعے کے خلاف ایم کیو ایم کی ہنگامی پریس کانفرنس میں فہد عزیز کی فوری رہائی اور پولیس کی اعلی قیادت کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

گذشتہ دنوں الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک دستاویزی فلم پر بھی ایم کیو ایم کا احتجاج سامنے آیا تھا۔ اس سلسلے میں منعقدہ عوامی اجتماع میں راہ نماؤں نے دستاویزی فلم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے، لیکن وہ میڈیا ٹرائل کی مذمت کرتے ہیں۔ اس موقع پر راہ نماؤں اور کارکنوں نے الطاف حسین سے اظہار یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ الطاف حسین کے ساتھ تھے اور آئندہ بھی ساتھ رہیں گے۔ ایم کیو ایم کے خلاف سازشوں کا جمہوری انداز میں مقابلہ کیا جائے گا۔ عوامی اجتماع کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں الطاف حسین کی تصاویر اور پارٹی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ انہوں نے الطاف حسین کے حق میں نعرے لگائے اور ایم کیو ایم کے پرچم تلے غریب اور متوسط طبقے کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف سازش کرنے والے عوامی اجتماع کو دیکھ کر جان لیں کہ کوئی بھی سازش اور میڈیا ٹرائل الطاف حسین کو عوام کے دلوں سے دور نہیں کرسکتا۔ یہ عوامی عدالت ہے، لوگ الطاف حسین کو اپنا راہ بر اور راہ نما سمجھتے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ ان کا قائد نہ جھکتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے۔

ماورائے عدالت قتل، سازشوں اور جھوٹے میڈیا ٹرائل کے باوجود الطاف حسین کو کوئی عوام سے دور نہیں کرسکا اور نہ آئندہ کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ملکی سطح پر سازشیں ہورہی تھیں، اب ان کا دائرہ کار عالمی سطح پر پھیل گیا ہے۔ ایم کیوایم کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ الطاف حسین پاکستان میں استحکام کی ضمانت اور علامت ہیں، ان کے خلاف پروپیگنڈا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے، انھوں نے کہا کہ دستاویزی فلم صحافتی اصولوں منافی ہے، اس پروپیگنڈے کا مقصد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکنا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک پُرامن، جمہوریت پسند، عدم تشدد کی حامی، اظہار رائے پر یقین اور آزادی صحافت کی علم بردار جماعت ہے لیکن ہم گم راہ کن باتوں اور میڈیا ٹرائل کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ اس کی پر زور مذمت بھی کرتے ہیں۔ اس موقع پر حیدر عباس رضوی، نبیل گبول، طاہر کھوکھر، فیصل سبزواری عامر خان، اشفاق منگی، اسلم آفریدی و دیگر بھی موجود تھے۔

گذشتہ دنوں آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر محمد امجد نے پریس کانفرنس میں اپنے قائد کا دفاع کرتے ہوئے ان کے حق میں تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف پاکستانی فوج کے سربراہ رہے ہیں اور فوج کا سربراہ کبھی غدار نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ پرویز مشرف سے اظہار یک جہتی کے لیے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کرے گی، جس کے تحت پاکستان بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے اور کراچی کے ساحل پر پچھلے دنوں پرویز مشرف کے حامی اپنے مطالبات کے ساتھ نظر بھی آئے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے راہ نماؤں خرم شیر زمان، ڈاکٹر سیما ضیاء اور دیگر نے موئن جو دڑو کے آثار پر ثقافتی میلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے تاریخی اور تہذیبی ورثے کو مٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف (سندھ) کے ترجمان دوا خان صابر، صوبائی راہ نما راجہ اظہر خان اور عبدالغفار حقانی بھی موجود تھے۔

خرم شیر زمان نے کہا کہ اس فیسٹیول کے لیے سرکاری خزانے سے مہم چلائی جارہی ہے، یہ رقم عوام کی صحت، تعلیم یا روٹی، کپڑا اور مکان کے لیے خرچ کی جاسکتی تھی۔ پچھلے دنوں ہی پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سینئر نائب صدر اور کراچی ڈویژن کے سرپرست انجینئر نجیب ہارون کے زیر صدارت تحریک انصاف کراچی ڈویژن کا ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے نجیب ہارون نے کہا کہ تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے، اب پارٹی کی قیادت کے ساتھ ساتھ کارکنان کی بھی اپنے چیئرمین عمران خان کا پیغام کراچی کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر سیف الرحمن خان، سبحان علی ساحل، سرور راجپوت اور دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔