مہنگائی اور ملکی معیشت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 25 دسمبر 2021
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب معیشت فروغ پاتی ہے تو ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہوجاتی ہے فوٹوفائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب معیشت فروغ پاتی ہے تو ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہوجاتی ہے فوٹوفائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب معیشت فروغ پاتی ہے تو ہمارے پاس ڈالر کی کمی ہوجاتی ہے ، اس کا دباؤ روپے کی قدر پر پڑتا ہے تو ریزرو کوسنبھالنے کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسپیشل ٹیکنالوجی زون لاہورکی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وطن عزیز کے عوام، مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں، حکومت کی پوری ٹیم یک زبان ہوکر معیشت میںبہتری کی نوید سنا رہی ہے، چند دنوں میں منی بجٹ پاس ہونے والا ہے ، جس سے ایک بار پھر مہنگائی کا سونامی آئے گا، آخر یہ سب کیا ہورہا ہے، کیسے ہورہا ہے، اس کے اسباب تلاش کرکے ان کے تدارک کی ضرورت ہے، صرف روزانہ کی بنیاد پر بیانات جاری کرنے سے مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہیں کیا جاسکتا ۔شرح سود میں اضافہ پاکستان کی معیشت بالخصوص حکومت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے۔

ستمبر 2021 سے اب تک شرح سود میں 275 بیسز پوائنٹس کے اضافے کے نتیجے میں 26 کھرب ملکی قرضوں پر سود کے اخراجات میں 1 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا جس سے مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔دوسری جانب آئے دن قرضوں کی واپسی کی سخت سے سخت شرائط پورا کرتے کرتے عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جسے اب اُٹھانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے۔گوکہ حکومتی حلقے ملکی معیشت میں برق رفتار سے بہتری کے دعوے کرتے ہیں، مگر معاشی اعدادوشمار کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ ’’عارضی مہنگائی‘‘ کا یہ دورانیہ طویل سے طویل ترہوتا جا رہا ہے۔

بازاروں میں ہر شے کی قیمت کو پر لگ گئے ہیں اور آئی ایم ایف واقعی عوام کی چیخیں نکال رہا ہے، حکومت امریکا کے مقابل کھڑی ہے تو اسے ردعمل کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے تھا اور پلان بی کے تحت عوام کو بچانے کی کوئی تدبیر بھی تیار ہونی چاہیے تھی۔

اس کے لیے مختلف تاویلات اور دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں مگر عام آدمی کو روٹی سے غرض ہے وہ دلائل سن کر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ رہی سہی کسر نکالنے کے لیے کافی ہے۔ایکسپریس کے نمایندے کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق رواں سال میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا ہے، پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے اورآمدورفت کے اخراجات بھی بڑھ گئے۔آٹا، گھی تیل، مرغی، گوشت، دودھ، دالیں اور مصالحہ جات، سب کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔

سب سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بھی فی یونٹ ڈھائی روپے اضافہ کا سامنا کرنا پڑا اور 50 یونٹ تک بجلی کے نرخ 4.19روپے فی کلو واٹ سے بڑھ کر 6.70روپے فی یونٹ تک پہنچ گئے، پٹرول گزشتہ سال 117روپے جب کہ ڈیزل 127روپے لیٹر اوسط قیمت پر فروخت ہوا، سال 2021کے اختتام تک پٹرول کی قیمت 144روپے اور ڈیزل کی قیمت 141روپے سے تجاوز کرگئی،ایل پی جی کے 11کلو گرام سلنڈر کی قیمت 1725روپے سے بڑھ کر 2526روپے تک پہنچ گئی، روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تمام درآمدی مصنوعات اور خام مال کی لاگت بڑھنے سے عام استعمال کی تمام اشیا بشمول ادویات، موٹرسائیکلوں، گھریلو برقی آلات کے پرزہ جات سے لے کر فٹ ویئرز، ملبوسات، کاپی کتابوں اور اسٹیشنری کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان رہا ہے۔

ملک میں مہنگائی میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگست 2019کے بعد سے غذائی اشیا کی مہنگائی (فوڈ انفلیشن) دہرے ہندسوں میں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی شعبے کی نمو موزوں شرح سے نہیں ہورہی۔ مہنگائی کا دوسرا اہم ترین سبب امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری ہے۔ مجموعی طور پر ملکی معیشت زوال پذیر ہے جب کہ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کے لیے باعث غوروفکر ہونی چاہیے۔

مانا کہ آئی ایم ایف مغربی اداروں کا ایک مہرہ ہے اور وہ ان مغربی ملکوں کے احکامات کی سرتابی نہیں کر سکتا اور مغربی ملک اس وقت پاکستان کے سیاسی نظام سے ناخوش ہیں اور یہ ناخوشی ایک کشیدگی میں ڈھل چکی ہے۔انھی طاقتوں کے زیر اثر آئی ایم ایف پاکستانی عوام پر ٹیکس لگاکر حکومت کو غیر مقبول بنانے کے ذریعے بدلے چکا رہا ہے۔ عدم مقبولیت نے حکومت کو پانیوں پر تیرتی کاغذ کی ناؤ بنا دیا ہے۔ موجودہ حالات میں انتخابات ہوں تو عوام اپنا حساب برابر کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کریں گے۔ مہنگائی کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مہنگائی کا ہر کوڑا عوام کی کمر پر ہی برستا ہے۔

مہنگائی پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔تیل وگیس اور بجلی میں ہر اضافہ سے مہنگائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں عاجز اور پریشان ہے۔ایک طرف حکومت اور اداروں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات زمین پر نظر نہیں آتے۔اب اگر معیشت میں بہتری کے آثار ہیں تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ معیشت کی بہتری کے اثرات اب عام آدمی تک پہنچنا لازمی ہوں گے۔اس وقت عام آدمی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔اس طرز کے حالات کے باعث معاشرے میں بدترین معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا ہے۔مڈل کلاس ختم ہوتی جارہی ہے۔

ملکی صنعت کاروں کو ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ کراچی کو ملکی برآمدات کا 54 فی صد اور 70 فی صد ریونیو دینے کے باوجود غیر برآمدی صنعتوں کی گیس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوئی سدرن نے اگر غیربرآمدی صنعتوں کی گیس منقطع کی تو فیکٹریوں کو تالے لگ جائیں گے جب کہ ایس ایم ایز سیکٹر تباہ ہوجائے گا۔ حکومت ایک جانب ملکی معیشت کے استحکام کی بات اوردوسری جانب برآمدات کے فروغ اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرنے پر کراچی کو مشکل میں ڈالا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام صنعتوں کی گیس بند کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

مہنگائی کی شرح کے حوالے سے مرکزی بینک کے اقدامات سے تاجر بہت زیادہ پریشانی کا شکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ معیشت اور عوام کے بہترین مفاد میں فوری طور پر شرح سود میں کمی کی جائے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے سے بڑھی ہوئی شرح سود میں مزید اضافہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ سیاسی ڈھانچے میں افراط زر اور شرح سود کے باہمی تعلق کے بارے میں قطعی غیر یقینی صورتحال ہے۔

ورلڈ بینک نے اپنی پاکستان ڈویلپمنٹ رپورٹ کے ذریعے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے پاکستانی عوام کو یہ خبر دی ہے کہ رواں برس مہنگائی کی شرح 8.9فیصد تک جا سکتی ہے۔آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی ایک اور قسط ملنے میں تاخیر سے پاکستان کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی مشکلا ت کی وجہ سے ملکی اور علاقائی سیکیورٹی کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔

معاشی اصلاحات کا عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔دوسری طرف ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح 14.31فیصدہوگئی ہے۔حالیہ ہفتے پچیس اشیا کی قیمتوں سمیت مہنگائی کی شرح میںمزید1.23فیصد اضافہ ہوا۔اس پر مستزاد یہ کہ حکومت نے نیپرا سے بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کی درخواست کی ہے۔یوں بنیادی ٹیرف میں فی یونٹ مزید اضافہ کیا جائے گا۔یہ سارے اقدامات عام آدمی کو معاشی طور پر مزید تباہ اور بدحال کرنے کا باعث بنیں گے۔

ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرے۔اس کے سوا عام آدمی کو معیشت کی بہتری کے دعوؤں پر یقین نہیں آسکتا۔ملکی معیشت بہتر ہو اور معاشرہ اس کے اثرات سے محروم رہے یہ قرین انصاف نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو انتظامی مشینری اورقانون کا سہار ا لے کر مہنگائی کا علاج دریافت کرنا چاہیے۔انتظامیہ کے ذریعے بازاروں اور مارکیٹوں کی نگرانی بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔

ملک کے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تائیوان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے برآمدات پر مرتکز (export-oriented)حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ برآمدات کے فروغ کے لیے پرائس مکینزم کا موثر انداز میں کام کرنا ضروری ہے جب کہ کچھ اقتصادی ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پرائس مکینزم پر بہت زیادہ توجہ سے ناقابل قبول نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، بالخصوص آمدن اور دولت کی عدم مساوات، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام اور افراتفری جنم لیتی ہے۔مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کچھ انتظامی عناصر مافیاز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کر رہے ہیں، جس سے مہنگائی کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔