زری پالیسی اور جیو اکنامکس

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 25 دسمبر 2021
فوٹوفائل

فوٹوفائل

سال 2021جوکہ پاکستان کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرکے اپنے اختتامی ایام طے کر رہا ہے۔ انھی ایام میں حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت 360 ارب روپے کا منی بجٹ بم گرانے کا ارادہ کر رکھا تھا، اسے فی الحال موخر کردیا ہے۔

ہو سکتا ہے اس میں خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے اپنا اثر دکھایا ہو۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے خودمختاری بل کو بھی موخر کر دیا ہے۔یقینی طور پر اس کے باعث قومی سلامتی سے متعلق کئی سوالات جنم لے چکے تھے۔ انھی دنوں اسٹیٹ بینک کی جانب سے نئی مانیٹری پالیسی کا اجرا بھی کیا گیا، اگر ہم مرکزی بینک کی تازہ زری پالیسی کا جائزہ لیں اور آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے کی بات کریں تو کئی تضادات سامنے آتے ہیں۔

ہر ملک کا مرکزی بینک اپنے ملک کی معاشی بہتری کے لیے پروگرام وضح کرتا ہے۔ ہر زری پالیسی کا ایک اہم ترین مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمتوں میں استحکام لایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں افراط زر کی شرح دو یا تین فیصد یا کچھ زیادہ بھی ہوتی ہے۔

5 فیصد سے زائد افراط زر کو یوں بھی معیشت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے اور اگر ایسا کہیں ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں مرکزی بینک اپنی زری پالیسی کو اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ افراط زر کو کنٹرول کیا جاسکے۔

پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیا جا رہا ہے، چند روز قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ایک اہم وجہ قرار دیا تھا۔ اور بدھ کو ہی وزارت خزانہ نے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی کی بڑی وجہ قرار دے دیا ہے، اس طرح تو آئی ایم ایف کی شرائط کے مقاصد کچھ اور ہی نظر آ رہے ہیں۔

بجلی کے نرخوں میں اضافے سے عوام متاثر ہوتے ہیں لیکن برآمد کنندگان بھی بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہر برآمدی صنعت کی مصنوعات کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کے بہت سارے فوائد معیشت و صنعت اور عوام کو پہنچ سکتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی تخمینے سے زائد 9 تا 11 فیصد رہے گی۔ اب اتنی زیادہ مہنگائی کو روکنے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسٹیٹ بینک بھی ایسی زری پالیسی کا اجرا کر سکتا ہے لیکن یہاں پر پھر آئی ایم ایف کی شرائط آڑے آ جاتی ہیں۔

باقی باتیں ایک طرف بجلی نرخوں میں اضافہ کیوں کیا جائے کیا اس کے مضر اثرات کے بارے میں معلوم نہیں کیا جاسکتا؟ کون سی مصنوعات ایسی ہے جو کہ بجلی، گیس کے بغیر تیار کی جاتی ہو۔ لاگت بڑھنے پر پاکستانی برآمدات کیسے متاثر نہیں ہوگی۔ اس طرح کم برآمد اور زیادہ درآمد۔ پھر اونچی شرح سود پر قرض اور انتہائی کڑی شرائط نتیجہ یہی نکلے گا کہ پاکستان کی معیشت جوکہ اسی منحوس چکر کے زیر اثر آچکی ہے۔

اب ساتھ یہ شرط لگا دی گئی کہ 360 ارب روپے کے اضافی ٹیکس جس کے باعث مہنگائی کا عفریت اب عوام کو کچلنے کے لیے تیار ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی میں اعلان کیا ہے کہ شرح سود میں مزید ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے شرح سود 9.75 فیصد مقرر کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مزید مہنگائی اور خسارہ بڑھنے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا ہے۔

رواں سال معیشت نے اتنے شدید ہچکولے کھائے ہیں کہ عوام سخت اذیت میں مبتلا ہو چکی ہے جس کے باعث کاروباری سرگرمیاں خاص طور پر نان فوڈ آئٹمز کا کاروبار شدید مندی سے دوچار ہوچکا ہے۔ خاص طور پر تعمیرات کا شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔

البتہ 2021 کے اختتامی ہفتوں میں ایک خوش آیند بات یہ ہوئی ہے کہ پاکستان سے ترکی جانے والی فریٹ ٹرین کا افتتاح کردیا گیا ہے۔ پہلی ٹرین کے ذریعے 3 ہزار ٹن سامان ترکی جائے گا، اس طرح تاجروں کے لیے بڑے مواقع پیدا ہوں گے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گیم چینجر ہوگی۔ وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ مسافر ٹرین کی بھی منصوبہ بندی کریں گے۔ بات دراصل یہ ہے کہ گیم چینجر جب ہی ثابت ہو سکتا ہے جب فوری طور پر مسافر ٹرین شروع کی جائے۔

ان میں مال بردار مسافر ٹرین بھی ہو۔ بہت سا سامان تجارت ایسا بھی ہوتا ہے جوکہ تاجر خود لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اس طرح ایران کے ساتھ بھی تجارتی روابط زیادہ بڑھائے جانے سے تینوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا۔

ایران اور ترکی بہترین سڑک کے نظام اور ٹرین کے نظام کے تحت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ کئی راستے ایران اور ترکی کو آپس میں ملاتے ہیں۔ ترکی کا ایک حصہ یورپ میں ہونے کے باعث کئی ذرایع سے یورپ کے ساتھ منسلک ہے۔ ترک سفیر جناب احسن مصطفی نے کہا ہے کہ پاکستان جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف جا رہا ہے، پاک ترک باہمی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے تجویز دی کہ اس روٹ کو یورپ تک بڑھایا جائے تو تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان ایران اور ترکی 1960 کی دہائی میں بھی ایک معاہدہ کرچکے ہیں جس کے تحت آر سی ڈی شاہراہ بھی تعمیر کی گئی تھی۔ جو پاکستان سے ایران اور پھر ترکی تک کے لیے تھی۔ لیکن جلد ہی پاکستان کو امریکا نے جیو پالیٹکس کا مسافر بنا دیا۔

اگر 1960 کی دہائی میں معاشی سوچ رکھنے والوں کے پروگرام کو مزید بڑھایا جاتا جیساکہ آر سی ڈی روڈ بھی پاکستان نے تعمیر کرلی تھی، پاکستان بتدریج جیو اکنامکس کی طرف گامزن ہو جاتا، اس وقت مشرقی بازو ہمارے ساتھ تھا۔ ذرا سوچیں سامان تجارت چٹاگانگ (بنگلہ دیش) کی بندرگاہ سے کراچی سی پورٹ تک پھر یہاں سے بذریعہ آر سی ڈی شاہراہ ایران اور وہاں سے ترکی۔ اس کے علاوہ پاکستان کی مصنوعات اور دیگر سامان تجارت بذریعہ آر سی ڈی روڈ کے ایران اور ترکی اور پھر وہاں سے یورپ کے مختلف ملکوں تک اس طرح پاکستان کی برآمدات 100 ارب ڈالر سے زائد ہوتی۔

دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کم آبادی کم رقبہ لیکن دو چار سو ارب ڈالر کی برآمدات معمولی بات ہے۔ یہ معاہدہ جسے علاقائی ترقیاتی پروگرام کا نام دیا گیا تھا بعد میں اسے وسط ایشیائی اسلامی ملکوں تک وسیع کردیا گیا تھا۔ جس کے باعث وسطی ایشیائی ملکوں کے لوگ بڑی تعداد میں پاکستان بسلسلہ تجارت آتے اور جاتے رہے اور ہزاروں پاکستانی بھی وسط ایشیا کے اسلامی ملکوں کا سفر اختیار کرتے تھے۔ امریکا کے افغانستان پر حملہ کرنے کے باعث یہ سلسلہ درہم برہم ہو گیا۔

بات پھر اس پر اٹک جاتی ہے کہ مسافر ٹرین چلے تو بڑی تعداد میں تاجر بھی سفر کریں اور ترکی میں تو یوں بھی بے شمار یورپی باشندے سیر و سیاحت و تجارت کے لیے آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انھی میں سے بہت سے افراد اپنے تجارتی و سیاحتی پروگرام میں پاکستان کو شامل کرلیں۔ سستا ذریعہ سفر میسر آئے گا تو ایسے میں بہت سے ترک اور یورپی تاجر بھی پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں۔

پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ مسافر ٹرین کا اجراجلد ازجلد ہو اور وہ بھی مال بردار مسافر ٹرین ہو اور یہ سلسلہ یورپ تک بھی بڑھایا جائے اس طرح یقینا پاکستان جیو اکنامکس کی طرف گامزن ہوگااور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ایسا ہونے کی ابتدا 1995 میں علاقائی ترقیاتی پروگرام کے آگے بڑھتے رہنے سے ہو جانا تھا، لیکن نصف صدی بعد بھی ہم معیشت و تجارت میں آگے سے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں تو ایسے میں کسی عالمی مالیاتی اداروں کی محتاجی نہ رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔