’’ون مین شو‘‘ نہیں ٹیم ورک ہونا چاہیے

سلیم خالق  ہفتہ 25 دسمبر 2021
رمیز راجہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کرکٹ کو جتنی جلدی ممکن ہو بہتر بنائیں فوٹوفائل

رمیز راجہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کرکٹ کو جتنی جلدی ممکن ہو بہتر بنائیں فوٹوفائل

آج کے دور میں شائقین کرکٹ رمیز راجہ کوشاید کمنٹری کی وجہ سے جانتے ہوں،البتہ اس سے پہلے وہ سابق اوپنر بھی تھے،ان کا انداز بیٹنگ کچھ سست سا تھا، آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ 1992 کے ورلڈکپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف انھوں نے  پورے 50 اوورز بیٹنگ کی اور158بالز پر102 رنز ناٹ آؤٹ بنائے،البتہ مجھے خوشی ہے کہ بطور چیئرمین پی سی بی وہ جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کرکٹ کو جتنی جلدی ممکن ہو بہتر بنائیں، چلیں اچھی بات ہے کوئی تو ایسا سربراہ آیا جسے ملک کا احساس ہے،رواں ہفتے وہ کراچی آئے اور کاروباری شخصیات سے ملاقاتیں کیں، رمیز جانتے ہیں کہ آج کل کی کرکٹ میں پیسے کی بہت اہمیت ہے لہذا وہ اسی حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں، شاید ان کی  اس کاروباری شخصیت سے بھی ملاقات ہوئی ہو گی جس نے انھیں ورلڈکپ میں پاکستان کے بھارت کو ہرانے پر بلینک چیک دینے کا کہا تھا، ملکی کرکٹ میں پیسہ آیا تو بہتری بھی آئے گی۔

اس حوالے سے درست سمت میں سفر شروع ہوچکا ہے،میں اپنے کالمز میں کئی بار لکھ چکا کہ چیئرمین کو پی سی بی میں اپنی اچھی ٹیم بنانا ہوگی ورنہ وہ جلد تھک جائیں گے، اکیلا رمیز راجہ بیک وقت چیئرمین، سی ای او، سی او او، ڈائریکٹر کمرشل وغیرہ وغیرہ نہیں ہو سکتا، کراچی میں میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے خود ’’ون مین شو‘‘ کا اعتراف کیا،البتہ انھیں دوسروں کو بھی کام بانٹنا ہوگا، ٹیم ورک ضروری ہے۔

اگر وہ کسی سے مطمئن نہیں تو اسے ہٹا کر اپنی مرضی کے آفیشل کا تقرر کر دیں،چیئرمین نے آتے ہی غیرملکی کوچز کو اسپانسر کرایا، پھر ڈراپ ان پچز کا منصوبہ بھی اسپانسر کرا لیا، البتہ سابق کرکٹرز نے اس پر سوال اٹھائے ہیں، میری بھی معلومات کے مطابق آسٹریلیا وغیرہ میں ایک سے زائد کھیلوں میں استعمال ہونے والے اسٹیڈیمز میں ڈراپ ان پچز بچھائی جاتی ہیں،انھیں گراؤنڈ کے اندر لا کر نصب کرنا بھی بڑا مسئلہ ہوگا  لیکن ظاہر ہے رمیز نے سوچ سمجھ کر ہی یہ قدم اٹھایا ہوگا،انھیں سابق آسٹریلوی کرکٹر چیپل مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں یقیناً اس میں بھی ان کی رائے شامل ہوگی۔

پی سی بی کے نئے سی ای او فیصل حسنین بھی کراچی میں چیئرمین کے ساتھ رہے،ان کا تعلق اسی شہر سے ہے لیکن بعد میں ملک سے باہرچلے گئے اور اب دہری شہریت کے حامل ہیں، فیصل اچھی ساکھ رکھتے ہیں،وہ کئی برس تک آئی سی سی کے سی ایف او رہے،موجودہ ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی سے ان کی اچھی دوستی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی میڈیا کانفرنس میں ان کا نام بھول گئے اور وسیم خان کہہ بیٹھے، خیر ایسا ہو جاتا ہے۔

فیصل شطرنج کے بڑے شوقین ہیں، دبئی میں سری نواسن کے ساتھ بازیاں بھی جمتی تھیں مگر پھر بھارت سے کونسل کا اپنے ایونٹس کے حوالے سے ٹیکس پر تنازع ہوا تو فیصل کی مشکلات شروع ہو گئیں، بورڈ میں شامل جائلز کلارک کسی بھارتی کو لانا چاہتے تھے،2018میں زمبابوے کرکٹ کے ایم ڈی کی پوسٹ چھوڑنے کے بعد سے فیصل ملازمت کی تلاش میں تھے اور اب پی سی بی میں آ گئے ہیں، وسیم خان تو 35،40 لاکھ روپے ماہانہ کا پیکیج پا لیتے تھے فیصل کو تو اس سے آدھی رقم بھی نہیں ملے گی، رمیز پہلے ہی آفیشلز کی بھاری تنخواہیں دیکھ کر پریشان ہیں۔

میڈیا کے سامنے انھوں نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ایک آفیشل کا نام بھی لیا تھا، چیئرمین نے اس حوالے سے اقدامات تو شروع کر دیے ہیں امید ہے جلد معاملات ٹھیک ہوجائیں گے، البتہ رمیز کو بار بار یہ کہنا بند کر دینا چاہیے کہ تنقید زیادہ ہوئی تو وہ عہدہ چھوڑکر دوبارہ کمنٹری کرنا شروع کر دیں گے، سب پر تنقید ہوتی ہے لیکن آپ کو ثابت قدم رہنا پڑتا ہے، رمیز کے گرو عمران خان پر ان دنوں کتنی تنقید ہو رہی ہے وہ بھی تو ڈٹے ہوئے ہیں۔

آپ اچھے کام کریں گے تو تعریفیں ہوں گی، غلطیوں پر نکتہ چینی بھی ہو گی جسے برداشت کرنا پڑے گا۔ کراچی میں قیام کے دوران چیئرمین نے وہ منظر بھی دیکھا جب قومی کرکٹ اسٹارز کو ہوٹل سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ بے یارومددگار رات کے وقت سڑک پر سامان لیے کھڑے تھے، قائد اعظم ٹرافی ملک کا سب سے  بڑا ٹورنامنٹ ہے، ایک کروڑ روپے انعامی رقم تو رکھ دی بورڈ کو انتظامات بھی بہتر کرنے چاہیے تھے، وقار یونس کے برادر نسبتی کی شادی میں صحافی شعیب جٹ بتا رہے تھے کہ فائیو اسٹار سے تھری اسٹار ہوٹل جا کر کھلاڑی پریشان ہیں۔

ایک ہی کمرے میں 2،2کرکٹرز کو رکھا گیا،امید ہے چیئرمین اس بدانتظامی کے ذمہ داران کیخلاف سخت ایکشن لیں گے، ویسے کراچی میں موجود کھلاڑی بھی بائیو سیکیورٹی کے ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، اکثر کھانا کھانے دور کے ریسٹورنٹ بھی چلے جاتے ہیں،2 بار پی ایس ایل کو کوویڈ کیسز کی وجہ سے روکنا پڑا تھا، حال ہی میں ویسٹ انڈیزکی ٹیم بھی واپس چلی گئی، پی سی بی کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے،کئی ٹیموں کو دورہ کرنا ہے، ذرا سی کوتاہی تمام سیریز کو خطرے میں ڈال دے گی۔

جیسے نجم سیٹھی کی چڑیا مشہور تھی نوجوان صحافی قادر خواجہ کی فاختہ انھیں خبریں بتاتی رہتی ہے،انھوں نے بابر اعظم کے حوالے سے خبر دی کہ انھیں بگ بیش کیلیے آفر تھی لیکن وہ گھروالوں کے ساتھ وقت گذارنے کی وجہ سے نہیں گئے، البتہ میری رائے کے مطابق بابر کو آسٹریلیا جانا چاہیے تھا، رمیز راجہ کہتے ہیں کہ جب تک ٹیم آسٹریلوی سائیڈ کو اس کے ملک میں نہیں ہرائے گی وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اس کیلیے ضروری ہے کہ ہمارے کرکٹرز وہاں کھیلنے کا جتنا موقع ملے اس سے فائدہ اٹھائیں، خیر اب پی ایس ایل آنے والی ہے، پلیئرز اس میں مصروف ہو جائیں گے،اگر آرام کرنا چاہتے ہیں تو ضرورکریں۔ آخر میں کچھ عابد علی کے حوالے سے بات کر لیں، ان کی جلد صحتیابی کیلیے سب دعاگو ہیں، وہ جتنے عمدہ بیٹسمین ہیں اس سے زیادہ اچھے انسان ہیں، چیئرمین کراچی میں کئی دن رہے انھیں عابد کی عیادت کیلیے اسپتال جانا چاہیے تھا، خیر اب بورڈ کا فرض ہے کہ وہ ان کے علاج میں بھرپور تعاون کرے تاکہ عابد پھر سے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔