بد امنی کا نیا استعارہ.... موٹر سائیکل

نسیم انجم  بدھ 12 فروری 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ٹرانسپورٹ کے مسائل نے سنگین صورت حال کو جنم دیا ہے، ان مسائل کے ذکر کو چند سطور کے بعد احاطہ تحریر میں لائیں گے۔ پہلے ایک اہم اور دلچسپ خبر سناتے چلیں، وہ یہ کہ امریکی بھی باکمال لوگ ہیں کچھ نہ کچھ ایسا کرتے ہیں کہ وہ منظر عام پر آ جاتے ہیں، خود نمائی کا طریقہ زندگی تک ہی محدود نہیں رہتا ہے بلکہ مرنے سے پہلے اس قسم کی وصیت کر جاتے ہیں کہ پوری دنیا میں اپنے انوکھے کام کی وجہ سے پہچانے جائیں۔ یہ قصہ ہے امریکی ریاست ’’اوہایو‘‘ کا اس ریاست کا ایک شخص جس کا نام بلی اسٹینڈلی تھا اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ جب وہ مر جائے تو اس حالت میں دفنایا جائے کہ جیسے وہ زندگی میں موٹر سائیکل پر سوار ہوا کرتا تھا اس کے فرمانبردار بیٹوں نے اپنے باپ کی خواہش کا احترام اس طرح کیا کہ جب وہ بستر مرگ پر تھے اس کے لیے تابوت تیار کروا لیا تھا اور جب اس کی موت واقع ہو گئی تب اسے موٹرسائیکل سمیت دفنا دیا گیا اس مقصد کے لیے شیشے کا تابوت تیار کیا گیا جس میں اس کی 1977 ماڈل کی ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل نصب کی گئی اور اس پر بلی اسٹینڈلی کی میت کو اس طرح بٹھا دیا گیا کہ جیسے وہ اپنی موٹر سائیکل چلا رہا ہو۔ بلی اسٹینڈلی کی لاش کو پہلے کیمیکل لگایا اور پھر اسے سیاہ کپڑے جو کہ چمڑے سے بنائے گئے تھے اس لباس میں ملبوس کیا گیا اور اوپر سے ہیلمٹ پہنا کر لاش کو دھاتی پٹی کے سہارے بٹھا دیا اور اسی حالت میں قبر میں اتارا گیا اس طرح تدفین عمل میں آئی۔

اگر اتفاق سے ایسا ہمارے ملک میں ہوتا تو قبرستان سے جوں ہی سوگواروں کی واپسی ہوتی انسان اور انسانیت کے دشمن قبرستان پہنچ کر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پہلے موٹر سائیکل کو قبضے میں کرتے اس کے بعد چمڑے کا لباس اور ہیلمٹ اتارتے یہ بھی ممکن تھا کہ گاہک بھی ساتھ لے آتے اور وہیں موٹر سائیکل اور چمڑے کے بیوپاریوں سے سودا طے ہو جاتا، رقم کے حصے بخروں کا معاملہ بھی قبرستان میں ہوتا۔ تعمیری اور مثبت کام کرنے والوں کے مقابلے میں تخریب کار اپنے کاموں کو بہت جلد پایہ تکمیل کو پہنچاتے ہیں، چونکہ ہر چور کا انھیں تعاون حاصل ہوتا۔

بات چلی تھی ٹرانسپورٹ کی تو یہ قصہ کہاں سے آ گیا؟ تو جناب! اس پورے واقعے میں ٹرانسپورٹ ہی تو شامل ہے یعنی موٹر سائیکل۔ ہمارے ہاں موٹر سائیکل اور اس کے سوار دہشت کی علامت بن گئے ہیں اسی وجہ سے آئے دن موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی جاتی ہے اس طرح گھن کے ساتھ گیہوں بھی پستے ہیں چونکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات سفر کے لیے موٹر سائیکل کا ہی انتخاب کرتے ہیں خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوست احباب کو بھی موقع فراہم کرتے ہیں، موٹرسائیکل پر دو ہی افراد نہیں بلکہ پورا پورا خاندان سوار ہو جاتا ہے۔ بیگم، بچے، والدہ یا بہنیں، لیکن یہ سواری ہے بڑی خطرناک اور اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ موٹرسائیکل چلانے والا بڑی بڑی حماقتیں کر کے اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان کا دشمن بن جاتا ہے اوور ٹیکنگ کرنا، سگنل توڑنا اس کا روز کا معمول ہے جس وقت سڑکوں پر تیز رفتار ٹریفک رواں دواں ہوتا ہے یہ موٹر سائیکل سوار گاڑیوں کے سامنے سے زن سے گزر جاتا ہے اسے یہ نہیں معلوم کہ گاڑیوں اور بسوں میں سفر کرنے اور ڈرائیونگ کرنے والے موٹر سائیکل چلانے والوں کو برے الفاظ سے نوازتے ہیں، چونکہ حادثہ ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ لیکن انھیں احساس نہیں، یہ پوری سڑک پر برق رفتاری سے موٹر سائیکل چلانا اپنا فرض اور تمام شاہراہوں کو ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں زیادہ تر سانحات ان کی اپنی حرکتوں اور قانون شکنی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔

بڑا ہی تکلیف دہ مسئلہ ہے کہ موٹر سائیکلوں کے ذریعے بد امنی اور قتل و غارت کا عمل عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ملزمان آتے ہیں اور اپنے ٹارگٹ پر گولیاں برساتے اور آنکھ جھپکتے غائب ہو جاتے ہیں، موٹر سائیکل سواروں نے نہ کہ لوگوں کی زندگیوں کے چراغوں کو گل کر دیا ہے بلکہ معاشرے میں خوف و ہراس بھی پیدا کر دیا ہے، چونکہ موٹر سائیکل سوار ڈکیتی، چوری بھی بڑی آسانی کے ساتھ کرتے ہیں کسی بھی راہ گیر کو روکا، پستول کے زور پر اس کا سب کچھ لوٹ لیا، ٹریفک جام کے مواقعوں پر بھی یہ لوگ بڑے مستعد نظر آتے ہیں، لمحہ بھر میں بے شمار موبائل اور نقدی چھین لیتے ہیں ان مواقعوں پر پولیس کا ہونا بے حد ضروری ہے لیکن پولیس جس طرح اہم شاہراہوں اور مختلف علاقوں سے غائب رہتی ہے بالکل اسی طرح برے وقتوں میں مسافروں کو لٹنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے، اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب پولیس والے ایک سے ہی ہیں۔ نہیں بالکل ایسا نہیں ہے۔ بلکہ فرض شناسی کے لیے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں اور بے حد بہادری کے ساتھ لٹیروں، ڈاکوؤں اور دشمن عناصر سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ان حالات میں بعض لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ موٹر سائیکلوں کے چلانے پر یا تو پابندی لگائی جائے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ مگر یہ علاج بھی مناسب نہیں۔ تخریب کاری کے خاتمے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر محلے میں ایک پولیس چوکی قائم ہو جہاں ہر روز ان کے کاغذات اور شناختی کارڈ دیکھا جائے ان کی موٹر سائیکلوں پر کوئی خاص سائن بنایا جائے جو کہ اسٹیمپ نما بھی کوئی چیز ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے نشانات سے جو موٹر سائیکلیں مبرا ہوں، انھیں فوراً قبضے میں لیا جائے اور موٹر سائیکل سوار سے معلومات حاصل کی جائیں۔ چونکہ دہشت گردوں کی موٹر سائیکلیں چھلاوے کی طرح روئے زمین سے اڑ جاتی ہیں، قانون نافذ کرنے والے کبھی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں تو کبھی مصلحت پسندی آڑے آ جاتی ہے۔ تاہم جرائم پیشہ عناصر اور کرائے کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے موثر اقدامات ضروری ہیں، موٹر سائیکل پر بندش کا تصور بھی اعصاب شکن ہے کہ ملک میں ٹرانسپورٹ کا کوئی منظم اور باوقار سسٹم رائج نہیں، موٹر سائیکل سفر و روزگار پر جانے کی ایک سہولت ہے اسے انسانوں کا شکار کرنے کے لیے جو لوگ استعمال کرتے ہیں انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

ٹرانسپورٹ کے مسائل میں ایک مسئلہ بسوں کی قلت کا بھی ہے۔ ساتھ میں رکشہ و ٹیکسی کے کرائے کو ادا کرنا متوسط طبقے کے بس کی بات نہیں ہے سی این جی کا ناغہ اور پٹرول مہنگا اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ چاروں صوبوں کے مسائل پر غور کریں وہ جس طرح دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں اور وہاں کے شہریوں کو روزگار اور تخریب کاری کے حوالے سے تسلی دیتے ہیں کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اسی طرح وہ صوبہ سندھ کے شہریوں کو برے حالات سے نکالنے کے لیے کام کریں، تمام انسان احساسات و جذبات کے اعتبار سے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ہر شخص سکھ و چین کا متمنی ہے، جس طرح انھوں نے پنجاب میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کیا ہے بالکل اسی طرح صوبہ سندھ کے ان گنت اور بے شمار مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیں، اس طرح انھیں عوام کی حمایت ملے گی اور پاکستان ترقی بھی کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔