- عمران خان کا لانگ مارچ کی تاریخ جمعہ کو دینے کا اعلان
- بھارتی سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی قتل کیس کے مجرم کو31 سال بعد رہا کردیا
- وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کا امکان
- حکومت نے بلوچستان کے لاپتہ افراد پر کمیشن کی تشکیل کا حکم چیلنج کردیا
- جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کی انگلش اسکواڈ میں واپسی
- حکومت نے چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کی چھٹی کا امکان ظاہر کردیا
- سری لنکا میں صرف ایمبولینسوں کے استعمال کیلیے پیٹرول رہ گیا
- پاکستان نے نیوزی لینڈ میں تین ملکی ٹی20 سیریز کھیلنے کی دعوت قبول کرلی
- جے یو آئی نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کردیا
- بجٹ میں امپورٹڈ موبائل فونز، گاڑیاں اور گھریلو سامان مہنگا کرنے کی تیاریاں
- مشفق الرحیم 5 ہزار ٹیسٹ رنز بنانے والے پہلے بنگلادیشی کرکٹر بن گئے
- طالبان حکومت امریکا کو اپنا دشمن نہیں سمجھتی، سراج الدین حقانی
- پشاور میں حساس ادارے کی گاڑی پر فائرنگ سے ایک اہلکار جاں بحق، 2 زخمی
- سیلفی جنون میں مبتلا نوجوان لڑکی 50 فٹ کی بلندی سے گر کر ہلاک
- وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حکومت اور اپوزیشن کا پلڑا برابر ہونے کا امکان
- حکومت کا غیر ضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی کا فیصلہ
- مجرموں کے ٹولے نے میری ٹیم کے عظیم کام پرپانی پھیردیا،عمران خان
- ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آم کی پیداوار میں 50فیصد کمی
- سفید فام بالادستی ایک زہر ہے جس کی امریکا میں جگہ نہیں، جوبائیڈن
- پنجاب میں سول اور پولیس بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ، 34 افسران تبدیل
ڈائریکٹریٹ جنرل آف ہیومن رائٹس خیبر پختونخواہ میں غیر قانونی بھرتیوں کا الزام

تقرریوں میں ہوم ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو نظر انداز کرکے دوسرے اضلاع کے افراد کو بھرتی کیا گیا۔
پشاور: ڈائریکٹریٹ جنرل آف ہیومن رائٹس خیبر پختونخواہ میں مبینہ طور پر سیاسی دباؤ کے تحت غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل نے مبینہ طور پر انسانی حقوق ونگ کے لئے 14 اضلاع میں تقرریاں کی جن میں ہوم ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا اور نشستوں کو پُر کرنے کے لیے دوسرے اضلاع کے افراد کو بھرتی کیا گیا۔
ضلع چترال میں ایک بھی چوکیدار نہیں ملا اور پوسٹ ضلع صوابی کے امیدوار کو دی گئی ۔ حیران کن طور پر چترال کا ایک بھی ڈرائیور پورے ضلع میں ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔ ضلع چترال کے رہائشی جنہوں نے کمپیوٹر آپریٹر اور جونیئر کلرک کے لیے درخواستیں دی تھیں، وہ بھی ٹیسٹ میں ناکام ہوئے اور پشاور و نوشہرہ کے لوگوں کو تعینات کیا گیا۔ چترال سے نائب قاصد کا عہدہ بھی پشاور کے ایک امیدوار کو دیا گیا۔
ذرائع کے مطابق بھرتیاں کچھ سیاسی عہدیداران کے پریشر پر کی گئیں جس پر متاثرین نے کئی جگہوں پر درخواستیں بھی جمع کرائی ہیں تاہم ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کے خلاف خیبر پختونخوا اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) نے ستمبر سے دسمبر 2020 اور مئی تا اپریل 2021 کے درمیان دو مرتبہ ڈائریکٹوریٹ سے چند بھرتیوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائیٹس ڈائیریکٹریٹ اسد علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا اشتہارکے بغیر کسی کو بھرتی نہیں کیا جا سکتا اور ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکامی پر اکثر افراد کی جانب سے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چترال میں ڈرائیور اسامیوں کے لیے تین ڈرائیوروں نے درخواستیں دی لیکن ٹیسٹ میں ناکام ہوئے جبکہ پورے ضلع چترال میں ایک بھی کمپیوٹر آپریٹر ٹیسٹ پاس نہیں کر سکا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔